• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

’سی پیک کے تحت ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ انڈس ڈولفن کیلئے خطرہ بن سکتا ہے‘

شائع October 26, 2020
مستقبل میں 3 ڈولفن پر سیٹلائٹ ٹیگز لگائے جائیں گے—فائل فوٹو:اے ایف پی
مستقبل میں 3 ڈولفن پر سیٹلائٹ ٹیگز لگائے جائیں گے—فائل فوٹو:اے ایف پی

کراچی: ورلڈ وائلڈ فنڈ فار نیچر-پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف- پی) نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ انڈس کاسکیڈ پروجیکٹ کے تحت ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیموں سے دریائے سندھ میں موجود ڈولفن کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ورلڈ ریور ڈولفن ڈے پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف-پی کا خیال ہے کہ ڈیموں کی تعمیر سے دریا کے قدرتی بہاؤ میں تبدیلی واقع ہوگی جس کے باعث دریائی پانی میں تبدیلی آئے گی اور دریائی ماحول میں پنپنے والی آبی حیات کے افزائشی میدانوں میں خطرہ ہوگا جو دریائے سندھ کی ڈولفن کو بھی نقصان پہنچے گا۔

یہ بھی پڑھیں: تیل سے آلودہ سمندری پانی سے اپنے بچے کو بچانے والی ڈولفن

بیان میں کہا گیا کہ 'جہازوں کے ذریعے اشیا کی نقل و حرکت کے لیے دریائے سندھ کی ترقی کے لیے ان لینڈ واٹر وے پروجیکٹ بھی دریائے سندھ میں ڈولفن کی آبادی کو نقصان پہنچا سکتا ہے'۔

ریور ڈولفن ریور انیشی ایٹو آف ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایشیائی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عظمیٰ خان نے دریائے سندھ کی ڈولفن اور اس کی آبادی کے پھیلاؤ کو لاحق خطرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انڈس ڈولفن پاکستان کے تمام بڑے دریا ستلج، بیاس، راوی سمیت جہلم میں بھی پائی جاتی تھی مگر بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے باعث ان دریاؤں میں انڈس ڈولفن کی آبادی کا خاتمہ ہوگیا اور اب یہ صرف دریائے سندھ میں ہی پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ بھارت کے حصے میں موجود دریائے بیاس میں 6 سے 8 دولفن موجود ہیں۔

ڈاکٹر عظمیٰ خان نے بتایا کہ بیراجوں کی تعمیر کی وجہ سے دریائے سندھ میں موجود ڈولفن کے پنپنے کی جگہوں میں تقریباً 80 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

ان کا خیال تھا کہ دریائے سندھ کی ڈولفن کا کنال میں پھنسنا معمول کی بات ہے، ہر سال تقریباً 8 ڈولفن کنال میں پھنس جاتی ہیں، جس کے بعد انہیں واپس دریا سندھ میں چھوڑا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: نایاب مچھلی کا شکار کئی انسانی جانیں نگل گیا

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اس کے علاوہ رہائشی جگہوں کی تقسیم، غیر مستحکم اور غیر قانونی مچھلیوں کے شکار کرنے کا عمل بھی دریائے سندھ کی ڈولفن کی نسل اور آبادی کے لیے خطرہ ہے'۔

واضح رہے 2017 میں کیے جانے والے آخری سروے میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ ایک ہزار 816 ڈولفن دریائے سندھ میں موجود ہیں جبکہ ان کی تعداد کا ایک بڑا حصہ گڈو اور سکھر بیراج کے درمیان 200 کلومیٹر کے حصے میں تھا جسے 1974 میں انڈس ڈولفن ریزرو ہونے قرار دیا گیا تھا۔

یاد رہے اس سے قبل تین سروے کیے گئے تھے 2001 میں کیے جانے والے سروے میں 965، 2006 کے سروے میں ایک ہزار 410 اور 2011 میں ایک ہزار 452 ڈولفن کی موجودگی رپورٹ کی گئی تھی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف-پاکستان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 2 دہائیوں میں ڈولفن کی تعداد دگنی ہوگئی ہے جو مقامی آبادیوں میں آگاہی مہمات اور ان کے شکار کی روک تھام کے ذریعے ممکن ہوئی۔

بیان میں کہا گیا کہ تنظیم پنجاب اور سندھ کے محکمہ وائلڈ لائف کے ساتھ تعاون کے ذریعے ڈولفن کی ہجرت کے طریقہ کار، نقل و حرکت اور اس کی اقسام کا مشاہدہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مزید یہ مستقبل قریب میں 3 ڈولفن پر سیٹلائٹ ٹیگز لگائے جائیں گے۔


یہ خبر 26 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024