سپریم کورٹ میں آئی جی سندھ کے ’اغوا‘ کی تحقیقات کیلئے درخواست دائر
اسلام آباد: عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والے افراد بشمول سینیئر صحافیوں اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سابق چیئرمین آئی اے رحمٰن نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس کے مبینہ اغوا پر سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا اور حراست کے ساتھ ساتھ فوجداری تفتیش میں غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی مداخلت کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور صوبائی خودمختاری پر اثر انداز ہونا قرار دیا جائے۔
پٹیشن کرامت علی، ناظم فدا حسین حاجی، محمد جبران ناصر، مہناز رحمٰن، سلیمہ ہاشمی، زہرا بانو، محمد تحسین، ناصر عزیز، فرحت پروین، فہیم زمان خان اور انیس ہارون کی جانب سے سینئر وکیل فیصل صدیقی نے دائر کی۔
یہ بھی پڑھیں:کس نے رات 2 بجے آئی جی کے گھر کا گھیراؤ کیا اور انہیں ساتھ لے گئے؟ بلاول بھٹو
پٹیشن میں وزارت داخلہ و دفاع کے علاوہ پاکستان رینجرز کو آئی جی سندھ کے امور اور دائرہ اختیار میں مداخلت سے روکنے کی درخواست کی گئی۔
درخواست میں اس بات کی انکوائری کے لیے ایک وسیع البنیاد کمیشن بنانے کی درخواست کی گئی کہ کیا 19 اکتوبر کو آئی جی سندھ کو اغوا کر کے زبردستی کیپٹن (ر) محمد صفدر کی گرفتاری کے احکامات پر مجبور کیا گیا تھا۔
درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ اگر یہ حقیقت ہے تو کمیشن کو اس بات کا تعین کرنا چاہیے کہ اس غیر قانونی اور مذموم کارروائیوں میں کون سے ادارے اور افراد ملوث تھے۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ جو افراد اس میں ملوث ہوں کمیشن ان کے بارے میں قانونی کارروائی بھی تجویز کرے جو صرف انتظامی معاملات تک محدود نہ ہو اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے اصلاحات متعارف کروائی جائیں۔
مزید پڑھیں:آرمی چیف کا 'کراچی واقعے' پر نوٹس، کور کمانڈر کو تحقیقات کی ہدایت
سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ اور دفاع، اور پاکستان رینجرز کو آئی جی پی کے اختیار اور دائرہ کار میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے اور رینجرز کو سندھ حکومت کے ماتحت اپنی قانونی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہیے۔
پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اس میں درخواست گزروں کے بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق عوامی اہمیت کا سوال شامل ہے کہ اگر صوبے کا آئی جی اغوا اور حراست میں ہوسکتا ہے تو تمام شہریوں اور صوبہ سندھ میں رہنے والوں کے آئین کی دفعہ 9 کے تحت زندگی اور آزادی کے حق، دفعہ 14 کے تحت عزت کے حق اور دفعہ 10 اے کے تحت مناسب عمل کے حق کو ناقابل تلافی پہنچا اور بنیادی حقوق کی ضمانت ناقابل اطلاق بن گئی۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق اور امن و عامہ برقرار رکھنے کی ریاست کی اہم ذمہ داری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا جبکہ آئی جی کے اغوا سے پولیس کی خودمختاری بھی متاثر ہوئی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ اس غیر قانونی اور بدنیتی پر مشتمل فعل سے پاکستانی ریاست کی بنیادیں لرز گئیں۔
آئی جی سندھ کا مبینہ اغوا
یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو کراچی میں اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے منعقدہ اجلاس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو مزار قائد میں نعرے بازی کرنے پر علی الصبح ہوٹل سے گرفتار کیا گیا تھا۔
گرفتاری کے کچھ دیر بعد سوشل میڈیا پر سابق گورنر سندھ محمد زبیر سے منسوب ایک آڈیو کلپ وائرل ہوا تھا جس میں آئی جی سندھ کے مبینہ اغوا سے متعلق بات کی گئی تھی۔
بعدازاں ایک نیوز کانفرنس میں بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ 'افسران سوال پوچھ رہے ہیں کہ وہ 2 لوگ کون تھے جو آئی جی سندھ کے گھر میں داخل ہوئے اور صبح 4 بجے انہیں کہاں لے کر گئے تھے'۔
یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ نے چھٹیوں پر جانے کا فیصلہ مؤخر کردیا
اسی معاملے پر صوبائی پولیس کے متعدد اے آئی جیز، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز نے بھی انسپکٹر جنرل آئی جی) کو چھٹیوں کی درخواستیں جمع کرا دی تھیں۔
تمام اعلیٰ افسران کی جانب سے درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف حالیہ مقدمے کے اندراج کے معاملے میں کام میں بے جا مداخلت ہوئی اور پولیس کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا، جس سے پولیس افسران و ملازمین دل برداشتہ اور افسردہ ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ دباؤ کے اس ماحول میں پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی مشکل ہے اور اس دباؤ سے نکلنے کے لیے رخصت درکار ہے۔
بعدازاں بلاول بھٹو کی اپیل پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کور کمانڈر کو اس کی تحقیقات کی ہدایت کی تھی جس پر پولیس افسران نے چھٹیوں کی درخواستیں مؤخر کردی تھیں۔
دوسری جانب سندھ حکومت کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے وزرا پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی ہے جو 30 روز میں اپنی رپورٹ جمع کروائے گی۔