• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

تناؤ کا شکار بیوروکریسی کتنی مؤثر ہوسکتی ہے؟

شائع November 27, 2020
آئی اے رحمٰن
آئی اے رحمٰن

پیشہ ورانہ تناؤ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا سامنا بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کو کرنا پڑتا ہے، اور کوئی بھی حکومت اس سے انکار نہیں کرسکتی۔ جدید ریاستوں میں اس کے حل کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس مسئلے پر توجہ دی جارہی ہے۔

کچھ عرصہ قبل اس ضمن میں 2 مطالعاتی تحقیقیں ہوئی تھیں، جن میں سے ایک پولیس کے محکمے میں پیشہ ورانہ دباؤ سے متعلق اور دوسری آڈیٹر جنرل کے دفتر میں کی گئی تھی۔

لیکن حال ہی میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک پالیسی (NIPP) کی جانب سے بیوروکریسی کے ایک بڑے طبقے پر کی جانے والی تحقیق نے ایک ایسی ضرورت کو پورا کیا جس کا شدت سے احساس کیا جارہا تھا۔

اس تحقیق کو درمیانے درجے کی بیوروکریسی میں پیشہ ورانہ تناؤ کا عنوان دیا گیا ہے۔ تحقیق میں وفاقی، صوبائی اور علاقائی حکومتوں میں کام کرنے والے گریڈ 18 اور 19 کے 357 افسران کو نمونے کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ اس تحقیق میں ان 3 سوالات کے جوابات جاننے کے لیے سروے کروایا گیا۔

مزید پڑھیے: بیوروکریسی کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

  1. پاکستان میں درمیانے درجے کے سرکاری افسران کس حد تک تناؤ محسوس کرتے ہیں؟
  2. ان افسران میں تناؤ کی کون سی ذہنی، جسمانی اور رویے سے متعلق علامات پائی جاتی ہیں؟
  3. تناؤ کی وجوہات کیا ہیں اور وہ اس سے کس طرح نمٹتے ہیں؟

اس سروے سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے:

1- جواب دینے والوں کی اکثریت نے اس بات سے اتفاق کیا وہ ملازمت کے دوران تناؤ کا شکار ہوتے ہیں اور یہ ان کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔

2- تناؤ کی ذہنی علامات میں مایوسی، اضطراب اور چڑچڑا پن شامل ہے جبکہ جسمانی علامات میں تھکن اور گردن اور کندھوں میں تناؤ شامل ہے۔ اس کے علاوہ رویے میں آنے والی تبدیلیاں جیسے بڑھتی ہوئی سماجی دُوری، جلد غصہ آنا اور کسی کام میں پہل کرنے یا تخلیقیت کی صلاحیت کے فقدان بھی تناؤ کی علامت ہے۔

3- یہ تمام علامات ان افسران میں زیادہ نظر آئیں جی کی ملازمت کا دورانیہ 6 سے 12 سال تھا، 13 سے 17 سال کی ملازمت کرنے والوں میں یہ علامات نسبتاً کم تھیں جبکہ 17 سال سے زیادہ ملازمت کا تجربہ رکھنے والے افسران میں یہ علامات سب سے کم تھیں۔ اگرچہ تناؤ کے تجربے سے مرد و خواتین دونوں ہی گزرتے ہیں لیکن خواتین میں اس کی علامات زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔

4- علامات کے پھیلاؤ نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ ایکس-کیڈر (ex-cadre) افسران دیگر افسران کے مقابلے میں مایوسی اور کمر درد کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

5- سرکاری افسران کی ملازمت اور گھریلو زندگی میں عدم توازن موجود ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اکثر افسران کا کہنا تھا کہ وہ ناصرف چھٹی کے دن بھی کام کرتے ہیں بلکہ اپنے خاندان کے لیے مختص اور فارغ اوقات میں بھی کام کو ترجیح دیتے ہیں۔

6- اکثر افسران کے مطابق ملازمت کی طلب اور اس پر قابو رکھنا تناؤ کی بہت چھوٹی وجہ ہے۔ زیادہ توجہ طلب وجوہات میں مختلف افسران کی جانب سے کام کے متضاد طریقے، کام کا بے انتہا بوجھ اور خاطر خواہ تنخواہیں نہ ملنا شامل ہیں۔

7- سرکاری ملازمین کی اکثریت کا خیال ہے کہ افسران اور ساتھیوں کی طرف سے حمایت نہ ملنا تناؤ کی بہت معمولی وجہ ہے۔

8- سرکاری ملازمین تناؤ کو دُور کرنے لیے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ بہت کم سرکاری ملازمین ہی کسی ماہر سے اس حوالے سے رابطہ کرتے ہیں۔

اس تحقیق میں کئی سفارشات بھی کی گئی ہیں۔

ملازمین کی صحت کی جانچ پڑتال

سرکاری ملازمین کی اکثریت ملازمت کے دوران تناؤ کا شکار ہوتی ہے لیکن ان میں سے کچھ ہی کسی طبّی ماہر کی مدد حاصل کرتے ہیں اور زیادہ تر افسران اس بارے میں بات نہیں کرتے۔

مزید پڑھیے: سول سرونٹس کی کارکردگی بہتر کیسی ہوگی؟

اس مسئلے کے حل کے لیے متعلقہ وزارت یا محکمے کو سالانہ بنیاد پر تناؤ کے حوالے سے ملازمین کی جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ ملازمین کو تناؤ پر قابو پانے کے طریقے سے آگاہی دینے کے ساتھ ان کے لیے آن کال ڈاکٹروں اور ماہرینِ نفسیات کی خدمات حاصل کرنی چاہئیں۔

تنظیمی روایات کی تبدیلی

اس تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سرکاری افسران کی اکثریت طبّی ماہرین سے مشورہ نہیں کرتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کے نزدیک تناؤ اتنا شدید نہیں ہوتا کہ اس کے لیے طبّی مدد حاصل کی جائے۔

خود کو درپیش تناؤ کے حوالے سے اس انفرادی غیر سنجیدگی کو ختم کرنے کے لیے تنظیمی روایات میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ تناؤ پر قابو پانے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دُور کیا جاسکے اور جس شخص کو بھی اس ضمن میں مدد کی ضرورت ہو تو وہ بلاجھجک متعلقہ فورم پر اپنی پریشانی کا اظہار کرسکے۔

کام کی مناسب تقسیم

تحقیق میں بتایا گیا ہے تناؤ کی علامات مرد و خواتین میں مختلف ہیں، اس کے علاوہ مختلف گریڈ کے افسران میں بھی یہ علامات مختلف ہوتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ کام کی غیر منصفانہ تقسیم ہو، اس لیے کام کی کچھ اس طرح منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے جس کے بعد نہ گریڈ 18 اپنے کیریئر کے آغاز میں کام سے بیزار ہوجائیں اور نہ گریڈ 19 کے افسران غیر ضرور دباؤ کا سامنا ہو۔

مزید سفارشات

تحقیق میں مزید سفارشات بھی کی گئیں ہیں جیسے کہ افسران میں پائی جانے والی تناؤ کی علامات پر قابو پانے کے لیے باقاعدگی سے تربیتی پروگراموں کا انعقاد کیا جائے جن میں ماہرین ان افسران کو تناؤ پر قابو پانے کے ناصرف مشورے دیں بلکہ اس کے عملی طریقے بھی بتائیں۔

افسران کو جب بھی ضرورت ہو، وہ وسائل سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ درجہ بندی اور کام کو انجام دینے کے حوالے سے معاملات کو بہتر کیا جائے تاکہ دباؤ میں اضافہ ہونے کے بجائے کمی ہو۔

تنظیمی ڈھانچے اور وقت کی تقسیم کو زیادہ مؤثر بنایا جائے اور اس ضمن میں نتیجہ خیز تربیتی پروگرامات کا انعقاد کیا جائے۔

افسران کے تبادلے ان پر اور کے گھر والوں پر دباؤ کا باعث بنتے ہیں اس وجہ سے تبادلوں سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔

اس کے علاوہ تنخواہوں سے متعلق شکایات کے بھی فوری ازالے کی ضرورت ہے۔

یہ تحقیق بیوروکریسی کے نظام میں اصلاحات اور خاص طور پر تناؤ پر قابو پانے کے حوالے سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ حکومت، چاہے تناؤ کی کسی بھی تعریف کو مدِنظر رکھے، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ اس سے ریاست کی جانب سے دی جانے والی خدمات پر منفی اثر پڑ رہا ہے اور اس کی قیمت عوام کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔

مزید پڑھیے: بیوروکریسی: خدمت عوام کی یا اپنی؟

تناؤ کا شکار بیوروکریسی کبھی بھی متحرک ریاست کے امور انجام نہیں دے سکتی۔ اس بحث سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ ریاستی نظام میں فوری تبدیلی لانا ناگزیر ہے۔

اس تحقیق سے ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ ریاستی امور چلانے والے نظام کو اتنا لچکدار ضرور ہونا چاہیے کہ وہ عوامی امنگوں کے مطابق تبدیلیوں کو قبول کرسکے، اور انتظامیہ کو مزید مؤثر بنانے کے کسی بھی مرحلے پر عوامی خدمت کے اصول پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ کسی کو بھی یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ کسی بھی قسم کی اصلاحات کو نفاذ کرنے کے بعد اس پر نظرثانی اور اس میں رد و بدل کی ضرورت پڑسکتی ہے۔


یہ مضمون 26 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

آئی اے رحمٰن

لکھاری ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024