• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

وزیراعظم عمران خان کا بنی گالا کا گھر ریگولرائز ہوگیا

شائع December 21, 2020
سی ڈی اے نے عمران خان کا بنی گالا کا گھر ریگولرائز کیا—فوٹو: محمد علی/ وائٹ اسٹار
سی ڈی اے نے عمران خان کا بنی گالا کا گھر ریگولرائز کیا—فوٹو: محمد علی/ وائٹ اسٹار

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا بنی گالا کا شاندار گھر اب قانونی ہے کیونکہ کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے گزشتہ برس کابینہ سے منظور ہونے والے نئے بائی لاز کے تحت اسے ریگولرائز کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری ریزیڈنشیل سیکٹرز زوننگ (بلڈنگ کنٹرول) ریگولیشنز 2020 کو حتمی شکل اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر نظرثانی کے لیے دسمبر 2018 میں کابینہ کی جانب سے تشکیل دیے گئے کمیشن نے دی۔

بائی لائز کو حتمی شکل دینے اور شفارشات پیش کرنے کے بعد کمیشن نے ماسٹر پلان کی نظرثانی ایک کنسلٹنٹ کمپنی کے لیے ’چھوڑ‘ دی۔

تاہم ابھی تک ماسٹر پلان پر نظرثانی کے لیے کوئی کنسلٹنٹ کمپنی کو نہیں رکھا گیا۔

مزید پڑھیں: ’عمران خان کا گھر پہلے ریگولرائز ہوگا تو باقی بھی ہوں گے‘

سی ڈی اے حکام کے مطابق عمران خان کا گھر زون 4 کے ذیلی زون بی میں آتا ہے، جہاں اتھارٹی کی اجازت کے بغیر تعمیر ہوئی لیکن یہ ’اجازت کی حد والے علاقے (جائز علاقے) میں آتا ہے‘ جہاں گھروں کو ریگولرائز کیا جاسکتا ہے۔

اس حوالے سے سی ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر (بلڈنگ کنٹرول) رحیم بنگش کا کہا تھا کہ ’ریگولرائزیشن کی فیس لینے کے بعد ہم نے وزیراعظم عمران خان کا گھر ریگولرائز کردیا‘۔

رحیم بنگش جنہوں نے رواں سال مارچ میں منظوری کا خط (اپروول لیٹر) جاری کیا تھا، کا کہنا تھا کہ عمران خان کا گھر سی ڈی اے کی اجازت کے بغیر تعمیر کیا گیا تھا لیکن یہ جائز علاقے میں واقع تھا، جہاں گھروں کو ریگولرائز کیا جاسکتا ہے لہٰذا اتھارٹی نے نئے بائی لاز کے تحت اسے ریگولرائز کردیا۔

سی ڈی اے حکام کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اپنے گھر کو ریگولرائز کروانے کے لیے تمام ضروریات کو پورا کیا۔

اتھارٹی کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’عمران خان نے اپنے ایک نجی عملے کے ذریعے اپنے گھر کی ریگولرائزیشن کے لیے اپلائی کیا تھا‘۔

اپروول لیٹر کے مطابق عمران خان نے ’بغیر منظوری کے چارجز‘ اور اسکروٹنی فیس کی مد میں سی ڈی اے کو 12 لاکھ 6 ہزار روپے ادا کیے۔

خط میں کہا گیا کہ سی ڈی اے خسرہ نمر 1939، خیوت نمبر 960، خاتونی نمبر 1652، 1654، 1656، 1658، 1660 اور 1674، موضع موہرا نور اسلام آباد پر عمارت کی تعمیر کے لیے بلڈنگ پلانز کو منظور کرتی ہے۔

سی ڈی اے حکام کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے دیگر درخواست گزاروں کی طرح ایک حلف نامہ (ایفی ڈیوٹ) جمع کروایا کہ وہ اتھارٹی کے قوائد و ضوابط اور آنے والے پالیسیز/ فیصلوں پر عمل کریں گے۔

حکام نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کا بنی گالا کا گھر زون 4 میں واقع تھا، جہاں تعمیر پہلے ہی جائز تھی لیکن شہری ایجنسی کے پاس اس علاقے میں بلڈنگ پلانز سے نمٹنے کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں تھا، جس کی وجہ سے وہاں غیرمجاز تعمیر ہوئی۔

تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ برس بنائے گئے کمیشن نے نئے قواعد منظور کیے، جنہوں نے اس عمارتوں کے لیے ریگولرائزیشن کی راہ ہموار کردی جو جائز علاقے میں تعمیر ہوئیں لیکن سی ڈی اے کے پاس وہاں ان عمارتوں سے نمٹنے کے لیے کوئی ضوابط نہیں تھے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ عمران خان بنی گالا کے علاقے میں 300 کنال اراضی کے جائز مالک تھے اور ان کا گھر فارم ہاؤس اسکیم کے پیٹرن پر ریگولرائز کیا گیا، جس کے تحت فارم ہاؤس کے مالکان زمین کے 20 فیصد حصے پر عمارتیں تعمیر کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'بنی گالا کا علاقہ سی ڈی اے نہیں پنجاب کی ملکیت ہے'

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے گھر کا کوورڈ ایریا 11 ہزار 371 اعشاریہ 09 اسکوائر فٹ تھا، اگرچہ فارومولے کے مطابق وہ 60 کنال پر کوورڈ ایریا رکھنے کے حقدار تھے۔

سی ڈی اے حکام کا کہنا تھا کہ عمران خان کے گھر کے علاوہ دیگر گھروں کو بھی ریگولرائز کیا گیا اور باقی گھر جو شہری ایجنسی کی ضروریات کو پورا کریں گے انہیں ریگولرائز کیا جائے گا۔

اسلام آباد کیپیٹل ٹیرٹری ریزیڈنشیل سیکٹرز زوننگ (بلڈنگ کنٹرول) ریگولیشنز 2020 زون 2، 4 اور 5 میں غیر مجاز تعمیر کے مالکان کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ سی ڈی اے سے اپنی عمارتیں ریگولرائز کرائیں۔

قبل ازیں 2018 میں عمران خان نے اپنے گھر کی ریگولرائزیشن کے لیے اپلائی کیا تھا، اسی سال اکتوبر میں اتھارٹی نے ان کی درخواست پر اعتراضات اٹھائے تھے اور انہیں نامکمل معلومات فراہم کرنے کا کہا تھا۔

بعد ازاں بظاہر سی ڈی اے کی طرف سے نامکمل ریگولیشز کی وجہ سے ریگولرائزیشن کا عمل روک دیا گیا تھا۔


یہ خبر 21 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024