• KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am
  • KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am

عافیہ صدیقی کیس: وزارت خارجہ کی رپورٹ غیرتسلی بخش قرار، جوائنٹ سیکریٹری عدالت طلب

شائع January 11, 2021
ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں قید میں ہیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر
ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں قید میں ہیں—فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد ہائیکورٹ نے امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس میں وزارت خارجہ کی جمع کرائی گئی رپورٹ کو غیرتسلی بخش قرار دے دیا۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں جسٹس عامر فاروق نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔

اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ، ڈپٹی اٹارنی جنرل، وکیل سجاد قریشی و دیگر پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران وزارت خارجہ کی جانب سے مذکورہ معاملے میں رپورٹ جمع کرائی گئی جسے عدالت نے غیرتسلی بخش قرار دے دیا۔

مزید پڑھیں: ڈاکٹر عافیہ خود پاکستان نہیں آنا چاہتیں، دفتر خارجہ

ساتھ ہی عدالت نے وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری کو 10 فروری کو عدالت طلب کرلیا۔

عدالت عالیہ نے وزارت خارجہ کو 2 ہفتوں میں دستاویزات کے ساتھ نئی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کیا گیا جبکہ ابھی تک کوئی معلومات نہیں کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

اس پر جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ کیا پاکستان نے امریکا سے حکومتی سطح پر یہ معاملہ اٹھایا ہے؟ ہر شہری کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جس سے وہ مبرا نہیں ہو سکتی، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل راجا خالد محمود نے کہا کہ عافیہ صدیقی کا کووڈ 19 ٹیسٹ ہوا جو منفی آیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا قونصل خانہ ہے جو اس معاملے کو دیکھتا ہے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سیکریٹری لیول کا افسر آکر بتائے کہ اس معاملے میں اب تک کیا پیش رفت ہوئی۔

انہوں نے پوچھا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کہاں رکھا گیا ہے؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہیں جیل میں رکھا گیا ہے۔

اس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے اس کو غیر سنجیدگی سے نہ لیں، چار سال بعد یہ کیس لگا ہے اور ہم آج بھی وہی کھڑے ہیں جہاں 4 سال پہلے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ اس معاملے میں اس قدر پرسکون (کیژول) ہے۔

اسی دوران ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ عدالت کی مشکور ہوں جس نے اس معاملے کی سنگینی کو سمجھا۔

ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ تاہم جب حکومت عدالت کا پاس نہیں رکھ سکتی تو اتنا کرایہ لگا کر آنا برداشت بھی نہیں کرسکتی۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ قوم کی بیٹی ہے، جس جیل میں عافیہ کو رکھا ہے اس میں کورونا پھیلا ہوا ہے، اس جیل میں جتنے بھی غیرملکی تھے ان کے ممالک نے اپنے قیدیوں کو اپنے ملک بلا لیا ہے۔

ساتھ ہی ان کے وکیل ساجد قریشی نے کہا کہ بھارت نے بھی اپنے قیدیوں کو بلا لیا ہے لیکن ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے تمام دلائل سننے کے بعد مذکورہ معاملے پر جوائنٹ سیکریٹری خارجہ کو 10 فروری کو طلب کرلیا۔

وزارت خارجہ کی رپورٹ

دوسری جانب عدالت عالیہ میں وزات خارجہ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ کورونا وائرس کی وجہ سے فیڈرل میڈیکل سینٹر (ایف ایم سی) کارس ویل میں جیل حکام کی جانب سے قونصلر دورے کو معطل کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ہماری قونصل جنرل کی ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ ملاقات رک گئی تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ تاہم قونصل جنرل ڈاکٹر عافیہ کی صحت اور حالت سے متعلق معلومات کے لیے جیل حکام سے مسلسل رابطے میں رہے اور اس معلومات سے ڈاکٹر عافیہ کے اہل خانہ کو باقاعدی سے آگاہ کرتے رہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’عافیہ صدیقی نے رحم کی اپیل پر دستخط کردیے‘

مذکورہ رپوٹ میں بتایا گیا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ہمارے سفارتخانے کی کوششوں کی وجہ سے ہیوسٹن میں موجود قونصلر جنرل کے لیے ایک خصوصی دورے کا انتظام کیا گیا اور انہوں نے 24 دسمبر 2020 کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے دوران ڈاکٹر عافیہ نے قونصل جنرل کو بتایا کہ ان کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ منفی آگیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر عافیہ قونصل جنرل سے ملاقات کے دوران الرٹ تھیں، مزید یہ کہ انہوں نے قونصل جنرل کو یہ بھی بتایا کہ حال ہی میں ان کے ماہر نفسیات نے ان کا معائنہ کیا تھا جنہوں نے انہیں (دماغی طور پر) تندرست قرار دیا۔

وزارت خارجہ کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 28 دسمبر 2020 کو ایڈیشنل سیکریٹری (امریکا) نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سے بات کی اور انہیں آخری قونصلر ملاقات اور رحم کی اپیل کی حالیہ حیثیت سے متعلق آگاہ کیا۔

رحم کی اپیل

مذکورہ رپورٹ میں رحم کی اپیل سے متعلق بتایا گیا کہ دسمبر 2019 میں قونصلر کے دورے کے دوران ڈاکٹر عافیہ نے رحم کی اپیل پر دستخط کیے تھے جس پر وشنگٹن میں ہمارے سفارتخانے نے امریکی محکمہ انصاف سے مزید کارروائی کے لیے رجوع کیا تھا۔

تاہم امریکی محکمہ انصاف کے پیرڈن اٹارنی جرنل کے دفتر نے تجویز دی تھی کہ رحم کی اپیل قیدی کی جانب سے خود سے بذریعہ ڈاک یا جیل وارڈن یا منتخب اٹارنی کے ذریعے دائر کی جاسکتی ہے جبکہ وکیل کی غیرموجودگی میں دوسرا آپشن یہ ہے کہ قیدی جیل وارڈن کے ذریعے درخواست جمع کرائے۔

رپورٹ کے مطابق اسی معاملے پر ہمارے قونصل جنرل نے ڈاکٹر عافیہ سے ملنے کے لیے 27 مارچ 2020 کو ملاقات کا منصوبہ بنایا تھا جو کووڈ 19 کی وجہ سے ملتوی ہوگیا۔

بعد ازاں متبادل کے طور پر درخواست کو ایف ایم سی بھیجا گیا تاکہ اسے محکمہ انصاف کو بھیجا جاسکے۔

تاہم ایف ایم سی نے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے محکمہ انصاف کو بھیجنے کے لیے اضافی رضامندی فام پر دستخط سے انکار کردیا۔

جس کے بعد قونصل جنرل نے جیل حکام سے ملاقات کے لیے رابطہ کیا اور صرف واشنگٹن میں سفارتخانے کی مداخلت کے بعد 24 ستمبر 2020 کو ایک خصوصی قونصلر وزٹ کا انتظام کیا گیا تاہم اس ملاقات میں بھی رضامندی فام پر دستخط نہیں ہوسکے۔

رپورٹ کے مطابق قونصل جنرل نے دوبارہ 15 دسمبر 2020کو ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کرنا چاہی لیکن جیل حکام نے انہیں بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ نے ان سے ملنے سے انکار کردیا۔

عافیہ صدیقی کی کہانی

پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی کہانی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔

خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر 2003 میں ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتا ہوگئی تھیں۔

مزید پڑھیں: عافیہ صدیقی سے متعلق میرا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر چلایا گیا، ترجمان دفترخارجہ

عافیہ صدیقی کو لاپتا ہونے کے 5 سال بعد امریکا کی جانب سے 2008 میں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

امریکی عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 'عافیہ صدیقی کے پاس سے 2 کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے عندیہ ملتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں'۔

جب عافیہ صدیقی سے امریکی فوجی اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں، جس کے بعد انہیں امریکا منتقل کر دیا گیا جہاں 2010 میں انہیں اقدام قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024