• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

آڈیٹر جنرل پاکستان کے دفتر میں 180 ارب روپے کی کرپشن کا پتا لگا لیا، وزیراعظم

شائع January 13, 2021
وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی—فائل فوٹو: عمران خان فیس بک
وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی—فائل فوٹو: عمران خان فیس بک

اسلام آباد: وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ نے آڈیٹر جنرل پاکستان (اے جی پی) کے دفتر پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جبکہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ادارے میں 180 ارب روپے سے زائد کی کرپشن کا پتا لگایا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت کابینہ اجلاس میں برطانیہ سے تعلق رکھنے اثاثہ جات ریکوری کمپنی براڈشیٹ ایل ایل سی کے مالک کی جانب سے حالیہ انکشافات کہ سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت کچھ لوگوں نے انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی، کی روشنی میں ایک بین الوزراتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

کابینہ نے اسمگلنگ کے خاتمے اور بذریعہ برآمدات ریونیو پیدا کرنے کے لیے گندم اور گندم کے آٹے کی افغانستان برآمد پر عائد پابندی کو ہٹانے پر بھی غور کیا گیا۔

ادھر اجلاس میں شریک ایک شخص نے ڈان کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیراعظم عمران خان اے جی پی کی کارکردگی سے ناراض تھے اور ان کا خیال تھا کہ صرف خبروں کی سرخیوں کے لیے آڈٹ پیراس بنائے گئے اور متعلقہ محکموں کے کام کرنے کو بہتر نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: اکاؤنٹس کے آڈٹ پر اے جی پی اور انجینئرنگ کونسل کے مابین تنازع

انہوں نے کہا کہ کچھ پیراز آڈٹ رپورٹس میں دہائی سے اٹھائے جارہے ہیں لیکن ان کو ٹھیک کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

ایک اور ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ان محکموں کے آڈٹ پیراز ختم کردیے گئے جنہوں نے عہدیداروں کو رشوت دی جبکہ جو انہیں مطمئن کرنے میں ناکام رہے ان کے پیراس کو آگے بھیج دیا جاتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے شکایات موصول ہونے پر انہوں نے تحقیقات کا حکم دیا تھا جس میں انہیں اے جی پی کے دفتر میں 180 ارب روپے سے زائد کی کرپشن کا پتا لگا۔

بعد ازاں کابینہ اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں وزیر اطلاعات شبلی فراز نے بتایا کہ اے جی پی کے اختیارات کو بڑھانے اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ قوانین میں ترامیم منظور کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان ترامیم کے بعد اے جی پی کے دائرہ کار کو خودمختار اداروں تک بڑھایا جائے گا جو ابھی تک نجی کمپنیوں سے اپنے اکاؤنٹس کا آڈٹ کراتے رہے ہیں۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ کچھ آڈٹ پیراز عملی مسائل سے متعلق ہیں جن کو رپورٹ کرنے سے غیر ضروری احساسیت جنم لیتی ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اے جی پی کے کام کو ڈیجیٹلائزڈ اور خودکار بنایا جائے گا اور آٹومیشن کے ذریعے چیک جاری کیے جائیں گے جبکہ انسانی عمل دخل کم کیا جائے گا تاکہ شفافیت میں اضافہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ادارہ جاتی اصلاحات پر حکومت بھرپور طریقے سے کام کر رہی ہے چونکہ یہ اس کے منشور میں ہے جبکہ کابینہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اس کی تفصیلات عوام کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔

وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین نے اجلاس کو بتایا کہ خزانے پر دباؤ کم کرنے کے لیے وفاقی حکومتی کے 100 سے زائد اداروں کو ضم یا ختم کردیا گیا۔

براڈشیٹ اسکینڈل

دوسری جانب براڈشیٹ ایل ایل سی کے کاوے موسوی کے انکشافات کے ان کی اثاثہ جات ریکوری کمپنی سابق وزیراعظم نواز شریف اور دیگر کے زیر اثر تھی اور ان کے پاس کچھ دیگر پاکستانیوں کی منی لانڈرنگ کے ثبوت بھی تھے، کے تناظر میں اس معاملے کا پتا لگانے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے ایک بین الوزراتی کمیٹی تشکیل دے دی۔

وزیراعظم عمران خان نے مذکورہ معاملے پر تبادلہ خیال اجلاس کے ایجنڈے پر بات چیت مکمل ہونے کے بعد صرف کابینہ اراکین کی موجود میں ’زیرو آور‘ کے درمیان کیا۔

وزیر کا کہنا تھا کہ ’کابینہ نے ایک بین الوزائی کمیٹی تشکیل دی ہے جو براڈشیٹ اسکینڈل میں سامنے آنے والے ہر فرد کی تفصیلات عیاں کریں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: تابش گوہر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی کے عہدے سے مستعفی

مزید یہ کہ وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ دستیاب مواد کی جامع جانچ پڑتال کے ذریعے پبلک کیے جائیں۔

وزیراعظم کی تابش گوہر سے ملاقات

علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے تابش گوہر سے ملاقات کی اور ہدایت کی کہ وہ معاون خصوصی برائے تونائی کی حیثیت سے خدمات جاری رکھیں۔

واضح رہے کہ تابش گوہر نے حال ہی میں ذاتی وجوہات کے باعث اپنا استعفیٰ دبئی سے وزیراعظم کو بھیج دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024