• KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • KHI: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • LHR: Maghrib 5:00am Isha 5:00am
  • ISB: Maghrib 5:00am Isha 5:00am

دہشتگردی: فائدہ کس کا؟

شائع August 13, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

ہندوستان-پاکستان کا "قصور کس کا" ڈرامہ اب اتنا پرانا ہو چکا ہے کہ اب آپ واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ہی تقریباً پورے پیٹرن کی پیش گوئی کر سکتے ہیں-

دو مثالیں لے لیجیے: نومبر 2008 میں جب اس وقت کے وزیر خارجہ، دہلی کے دورے پر تھے تو ممبئی حملے کا ڈرامہ رچایا گیا تھا- اس بار جب کہ انڈین اور پاکستانی وزراء اعظم، اگلے ماہ نیویارک میں ملاقات کی تیاری کر رہے تھے، پچھلے ہفتے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر ایک اور پراسرار واقعہ پیش آیا-

یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ انڈین فوجی عجیب و غریب حالات میں مارے گۓ ہوں اور انہیں ہندوستانی شہ سرخیوں میں اسی گھسے پٹے انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہو-

اور یہ بھی کوئی غیر معمولی بات نہیں کہ اس طرح کی اشتعال انگیز حرکتیں ٹھیک اسی وقت ہوتی ہیں جب جنوبی ایشیا میں خیرسگالی کے لئے مشترکہ کوشش اور پیشرفت ہو رہی ہو- کیا فقط پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ کو ہی اس انتشار سے فائدہ پنہچے گا؟

یا پھر انڈین اسٹیبلشمنٹ میں بھی کوئی ہے جو بےپناہ اور نقصان کے باوجود، ہماری زندگیوں میں میں شامل ہو جانے والی عسکریت پسندی بنام دہشتگردی پر خوشیاں منا رہا ہے؟

یہ بھی درست ہے کہ بہت سی تحقیقات کو خفیہ رکھنے میں پاکستانی فوج کا بھی حصّہ رہا ہے- اس میں امریکی اور انڈین بھی شامل ہو سکتے ہیں لیکن سویلین حکمرانوں کو خارج نہیں کیا جا سکتا- فوج اور انٹیلی جنس ادارے جنہیں عموماً پاکستان میں ڈیپ اسٹیٹ بھی کہا جاتا ہے، خود اقرار کرتے ہیں کہ وہ انڈیا مخالف ہیں، یہ انکی خصلت کا حصّہ ہے-

چناچہ یہ ممکن ہے کہ جس اسلامی عسکریت پسند گروہ نے پچھلے ہفتے انڈین گشتی فوج پر حملہ کیا اسے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ نے روکنے کی کوشش نہیں کی ہوگی-

ایل او سی واقعہ کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان کے سویلین حکمران، فوجی جرنیلوں کی خواہش کے برخلاف افغانستان میں انڈیا کے زیادہ کردار کے حامی ہیں-

پاکستان کے خارجہ مشیر سرتاج عزیز، نے وائس آف امریکا کے ایک انٹرویو میں، مستقبل میں افغانستان کی تعمیر کے لئے انڈین کردار پر غیر رسمی طور پر زور دیا اور خیرمقدم بھی کیا-

کیا اسی چیز کو لائن آف کنٹرول پہ ختم کرنے کی یا راستے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی؟ یا جیسا کے بعض اخباروں میں بتایا گیا ہے کہ پانچ انڈین فوجیوں کے قتل کا تعلق حالیہ واقعہ سے ہے جس میں انڈین فورسز نے گھات لگا کر کشمیر میں گھسنے والے ایک پاکستانی عسکری گروہ پر حملہ کیا-

اگر بڑی تصویر میں دیکھا جاۓ تو پاکستانی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ، انڈیا میں ہونے والی کسی بھی قسم کی غیر متوقع کشیدگی سے فائدہ اٹھاتی ہے، لیکن اس بار بات کشمیر کے معاملے کو دوبارہ گرما کر روایتی فائدہ اٹھانے کی نہیں ہے-

اس بار معاملہ 'افغانستان میں سٹریٹجک ڈیپتھ' کا ہے، اگر افغان اس قسم کے کسی بھی تصور کی اجازت دیتے ہیں تب-

وہ کونسے انڈین ہیں جنہیں، یوں کہہ لیں کہ، ممبئی جیسے حملوں یا حالیہ ایل او سی جیسے واقعات سے فائدہ ہوتا ہے؟ میرے خیال سے فی الحال، جتنا گمراہ کن یہ لگتا ہے، پاکستان سے وابستہ ایسے واقعات سے سیاسی فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد پہلے سے بہت زیادہ ہے-

پاکستان میں بمشکل ہی کوئی سیاسی جماعت ہے، وزیر اعظم نواز شریف کی پارٹی سے لے کر پی پی پی تک، عمران خان کی پی ٹی آئ سے لے کر ایم کیو ایم تک، جس نے انڈیا مخالف جذبات سے فائدہ نہ اٹھایا ہو-

دوسری طرف انڈیا میں بھی، حد یہ کہ بائیں بازو کی پارٹیاں تک نیشنلسٹ مقصد کے حصول کے لئے جنگجو پالیسی کے حامی دائیں بازو والوں کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں-

انڈین مسلمانوں کی بے جھجھک حمایت والے سماج وادی پارٹی کے لیڈر ملائم سنگھ کو ہی لے لیں جو شاذ و نادر ہی پاکستان کو لعنت ملامت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتے ہیں- ممکن ہے ایک سابقہ وزیر دفاع کی حیثیت سے انہیں دیگر حلقوں کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہو-

بظاہر بے ضرر دکھنے والے راہول گاندھی تک ذرا سے انتخابی فائدے کے لئے بڑی ڈھٹائی سے جتاتے پھرتے ہیں کہ ان کی دادی نے پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا تھا، اس قسم کی موقع پرستی انکی 'قومی مفاد' کی مقدّس گاۓ کے دودھ میں اپنا حصّہ وصول کرنے کی کوشش کی صاف مثال ہے-

پچھلے دنوں وہ انڈیا میں جمہوریت زندہ رکھنے کے لئے پیرا ملٹری فورسز کی تعریف کر رہے تھے، ان کا یہ اصرار تھا کہ انہوں نے پنجاب میں سکھ عسکریت پسندی کو کچل دیا تھا-

کمیونسٹ قیادت والے لیفٹ فرنٹ نے دیہی سطح پر ہونے والے انتخابات میں مغربی بنگال کی چیف منسٹر مامتا بنرجی کے ہاتھوں بری طرح مات کھائی، خاتون نے بائیں بازو والوں کے ہاتھوں سے مسلم ووٹ چھین لئے اور اب ایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی مارکسسٹ پاکستان کے خلاف اپنے روایتی نرم رویے کو چھوڑ کر سخت پوزیشن اپنا رہے ہیں، اسے آپ انتخابی نقصان کی تلافی کے لئے ایک غلط کوشش کے طور پر شمار کرلیں-

مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ امن کا بہترین موقع انڈیا کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہندوتوا بینر کی طرف سے آیا-

اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ مئی سنہ 2002 میں وہ ہندوتوا کی لا پرواہی ہی تھی جو پاکستان کے ساتھ ایک خطرناک جنگ شروع کرنے کے لئے بے چین تھی- اٹل بہاری باجپائی امن چاہتے تھے لیکن وہ ہمیں نیوکلیئر جنگ کے قریب لے ہی گۓ تھے-

ہندوستانی سیاست میں پاکستان مخالف نعرے بازی اور بے لگام جنگی جنوں کی حوصلہ افزائی کے اس رجحان میں انڈین انٹیلیجنس سیٹ اپ کا بھی کافی حصّہ ہے- انڈیا کے اپنے دیپ اسٹیٹ کا یہ پہلو اخباروں میں کسی حد تک زیر بحث آنے لگا ہے- پھر بھی، بہت کم انڈین ہیں جو اپنی اندرونی اور بیرونی خفیہ اداروں اور ان سے بھی کم اپنی فوج کو تشویش کی وجہ سمجھتے ہیں-

جب دسمبر سنہ 2001 میں پارلیمنٹ پر ایک پراسرار حملہ ہوا تو اس وقت کی حزب مخالف کے لیڈر منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس پارٹی نے ہندوتوا حکمرانوں سے کچھ چبھتے سوال ضرور کیے لیکن جب طبل جنگ بجنے لگا تو پارٹی نے خاموش رہنا مناسب سمجھا-

آج کانگریس کے وزیر دفاع محض اس وجہ سے زیر عتاب ہیں کے انہوں نے واقعے کے بعد یہ کہہ دیا کہ ایل او سی پر انڈین فوجیوں پر حملہ کرنے والے لوگ ممکن ہے فوجی بہروپ میں اسلامسٹ عسکریت پسند ہوں- براہ راست پاکستان آرمی کا نام نہ لینے کی وجہ سے بی جے پی آج ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑی ہوئی ہے- سچ تو یہ ہے کہ، انٹیلی جنس سیٹ اپ کی حمایت کے ساتھ بی جے پی انتخابات سے قبل، پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کے امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے-

پاکستان اور انڈیا کے وزراء اعظم، نیویارک میں ملنے اور بہت سے معاملات پر گفتگو کے منصوبے بنا رہے ہیں- کیا ان میں اتنی ہمّت ہے کہ اپنی اپنی ڈیپ اسٹیٹ کا مقابلہ کر سکیں؟

اگر ایسا ہو پاۓ تب ہی ہم دہشت گردی کی اصل حقیقت اور اس سے فائدہ اٹھانے والے پراسرار لوگوں کے بارے میں جان سکیں گے.ََِِ


مصنف دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں- ترجمہ: ناہید اسرار

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 8 اپریل 2025
کارٹون : 7 اپریل 2025