وفاق، خیبر پختونخوا کی 25ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا
اسلام آباد: وفاقی اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے 25 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر سوال اٹھادیے ہیں جس کے تحت 31 مئی 2018 کو فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود نے یہ اعتراض اٹھایا کہ یہ درخواستیں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار کے تحت دائر نہیں کی جاسکتیں لہذا ان کو فوراً مسترد کردیا جانا چاہیے۔
مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا: انضمام شدہ علاقوں کے طلبہ 2 سال بعد بھی وظیفہ اسکیم سے محروم
درخواستوں کو سابق فاٹا کی ملک برادری کے متعدد افراد بالخصوص ملک انور اللہ خان نے اپنے وکیل وسیم سجاد کے ذریعے دائر کیا تھا۔
سینئر وکیل خواجہ حارث احمد جو ملک برادری کے متعدد افراد کی نمائندگی کررہے تھے، نے حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب پیش کرنے کے لیے وقت طلب کیا۔
درخواست گزاروں کی شکایت یہ تھی کہ فاٹا کے عوام 25 ویں آئینی ترمیم کی بنیاد پر انضمام کے اقدام پر عدم اعتماد اور غم و غصے کا شکار ہے جس کی وجہ فاٹا کے عوام سے قائداعظم محمد علی جناح کا ایک وعدہ ہے جس کی وجہ سے انہوں نے رضاکارانہ طور پر پاکستان کا حصہ بننے پر اتفاق کیا تھا اور اس کے علاوہ ترمیم لانے سے قبل ان سے مشورہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی کوئی جرگہ یا رائے شماری آئین کے آرٹیکل 247 (6) کے تحت کرائی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: فاٹا انضمام سے متعلق 31ویں آئینی ترمیم کا بل بھاری اکثریت سے منظور
تاہم وفاقی حکومت نے استدلال کیا کہ کسی بھی تشریح کو استعمال کرکے یا بنیادی حقوق کے دائرہ کار کو وسیع کرکے اور لبرل انداز میں اس کی ترجمانی کرنے سے مشورے ریفرنڈم یا جرگوں کو بنیادی حقوق کے معنی میں نہیں لایا جاسکتا جیسا کہ آئین کے چیپٹر ایک کے حصہ دوئم میں تصور کیا گیا ہے۔