پردیس سے دیس: خاندانی دباؤ اور اکیلی عورت (پانچویں قسط)
گزشتہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط، تیسری قسط، چوتھی قسط
ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ جو پاکستان سے چلے جاتے ہیں وہ واپس نہیں آتے۔ کبھی کوئی یہ سوال نہیں پوچھتا کہ آخر کیوں نہیں آتے؟
ہمارے لیے واپس آنا اس لیے بھی مشکل تھا کہ ہم دونوں کے بھرے پرے خاندان تھے، رعب دار والدین تھے اور ہم ان کو یہ سمجھانے سے قاصر تھے کہ ابوظہبی کی تمام سہولیات سے بھرپور، محفوظ اور اعلیٰ طرزِ زندگی چھوڑ کر ہم ایسے پاکستان اس لیے واپس نہیں آنا چاہتے کیونکہ یہاں لوگ ہر وقت بجلی، پانی، قانون اور تحفظ کی عدم فراہمی پر برہم رہتے ہیں۔
لیکن پاکستان میں ان تمام تر مشکلات کے باوجود کچھ آسانیاں بھی ہیں۔ جیسے پاکستان میں تقریباً ہر ادارے میں ہی کم از کم سال بھر میں 20، 25 چھٹیاں ہوتی ہیں، جبکہ سرکاری چھٹیاں اس کے علاوہ ہیں، لیکن امارات میں سرکاری چھٹیاں ملا کر اکثر تارکین وطن کے لیے محض 10 سے 12 اضافی چھٹیاں بنتی ہیں۔
پھر عربوں کے اس دیس میں فیملی کی ڈھنگ سے صورت دیکھنے کے لیے انسان کو جمعے کی اکلوتی چھٹی کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی عموماً صرف گروسری کرتے گزر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی خوشی غمی پر، اچھے بُرے وقت پر پوچھنے والا اور بتانے والا کوئی نہیں ہوتا، اور نہ ہی آپ کے ساتھ مشکل میں کھڑے ہونے والا کوئی ہوتا ہے۔ یہ ریاضتیں اپنی شدت اور تکلیف میں کئی گنا بڑھاوا دے دیتی ہیں۔ سو محفوظ ترین شہر میں اعلیٰ ترین سہولیات کے ساتھ بھی ہم بجھ کر رہ چکے تھے، لیکن اس کے برعکس اپنے دیس میں لوگ آج بھی ایک دوسرے کی فکر ضرور کرتے ہیں۔
میاں صاحب اپنی انتہائی سنجیدہ طبیعت کی بنا پر دوستیوں سے مکمل گریز کرتے تھے چنانچہ سالہا سال سے ہم تقریباً ایک مکمل الگ اور تنہا زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ بچے بند کمروں میں بیٹھے بیٹھے معاشرے سے بنائے اور نبھائے بغیر ہی پل گئے تھے۔ اب ہم پریشانیوں کو جب بھی سہولیات پر تقسیم کرتے تو صفر کبھی نہ آتا، فرق روز بروز پہلے سے بڑھتا جاتا۔ اعصاب تھک چکے تھے تو والدین اور خاندانوں کی رگ جانتے ہوئے ہم نے نسبتاً ایک آسان راستہ چُنا کہ شاید اس طرح سے ہم کچھ مشکلات سے بچ جائیں گے، یہ بعد میں جانا کہ اس سے تو شاید ہم نے مشکلات کو ضرب کردیا ہے۔
ہم نے اپنے خاندانوں کو دفتری مجبوری کا بتایا کہ اب کچھ دن وہاں اور کچھ دن یہاں گزارنے پڑیں گے۔ جھوٹ بولنے کی عادت نہ تھے مگر پوچھنے والوں کو کریدنے کی عادت تھی سو کئی کئی بار یہ جھوٹ جیسے تیسے بولا، سوچا کہ ایک بار شفٹ ہوجائیں گے تو مشکل وقت گزر جائے گا ورنہ پاکستان جانے سے پہلے ہی سب سمجھا سمجھا کر ہمارا حوصلہ ہی توڑ دیتے۔
ہم اوورسیز اکثر اپنے مسائل پیچھے اپنے خاندانوں کو بتانے سے گریز کرتے ہیں۔ ایک تو اس لیے بھی کہ فائدہ کچھ نہیں خواہ مخواہ والدین پریشان ہوتے رہیں گے۔ دوسرا کچھ بھرم بھی رہ جاتا ہے کہ بڑی پُرسکون زندگی گزر رہی ہے۔ اب اصل صورتحال تو قبر کا مردہ ہی جانتا ہے۔ چنانچہ پھر ایسے اوقات میں جب مسائل سے الجھ الجھ کر تھک جاتے ہیں اور بالآخر ہاتھ کھڑے کرکے آسانیوں کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں تو یہی خاندان ہماری محبتوں کے مارے پریشان ہوجاتے ہیں کہ ہم جنت سے اترنے کی نیت کیوں کر رہے ہیں اور جتنی ان کی محبت شدید ہو اتنی ہی ہمارے ان مذموم مقاصد کے خلاف مزاحمت بڑھ جاتی ہے۔ یہی خاندانی دباؤ ہمارے لیے کوئی آسمانی بلا ثابت ہوئی کہ جو اترتی ہے تو پھر انسان سنبھل ہی نہیں پاتا۔
سو پہلے تو روز روز اماں ابا کی فون کالز کا سلسلہ شروع ہوا کہ نوکری کی تفصیلات جاننی تھیں، اسی دوران ہم پر کرائے کے گھر کا عذاب بھی مسلط تھا۔ روز ان کو تسلی دیتے کہ میاں صاحب ابھی 4 دن میں چکر لگائیں گے اور میاں صاحب کو اسی وجہ سے ہر ماہ لازماً آنا بھی پڑتا۔ ہماری رشتے کی بہن جو 'راز' ہمارے شروع کے دنوں میں لے گئی تھیں، وہاں جاکر اس میں خوب کھلے دل سے مصالحے کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے لاوا دن بدن ابل ابل کر ہماری طرف لپکتا رہا۔
پھر آخر کسی محسن نے بھانڈا پھوڑا کہ دفتری مسائل دراصل جھوٹا بہانہ ہے پاکستان شفٹ ہونے کا۔ اگلے سلسلے میں روزانہ پیشیاں پڑنے لگیں کہ جھوٹ کیوں بولا؟ ایسی تفتیش، ایسے اعتراضات اور فرمودات کہ پاکستانی تھانے میں کیا دیے جاتے ہوں گے۔
ہم آبائی شہر اور خاندان کے گڑھ رحیم یارخان سے 10 گھنٹے کے فاصلے پر بیٹھے تھے اس لیے یہ تو نہ جان سکے کہ آخر وہاں پر لوگوں کے خدشات کیا تھے اور کن کن معاملات میں وہ وہم کررہے تھے، مگر والد صاحب کی آواز میں روز بڑھتی گرج کو سن کر اندازہ ہوچلا تھا کہ یہ سب رشتہ داروں کی باتیں سن کر ہوا ہے۔
'آخر میں اکیلی کیوں آگئی، اکیلی کیسے رہوں گی؟ اکیلے سب کیسے کروں گی؟ کون خیال رکھے گا؟ کون دیکھے گا؟ ایسا شہر، ایسا معاشرہ ایسے حالات'، کہنے کو تو یہ دیسی محبت اور فکر تھی مگر دل کو زخمی کردیتی۔ ہم سوچتے 'آپ ساتھ دیں تو کرلیں گے، آپ ہمت اور حوصلہ دیں تو سب ہوجائے گا'۔ اب یہ وہ کہکشاں ہے جس پر ہمارے ہاں چلنے کی کوئی روایت ہی نہیں۔ ہمت حوصلہ اور تھپکی دے کر آگے بڑھانے کا کوئی رجحان ہی نہیں صرف اعتراضات، اختلافات اور تحفظات بتا کر ہاتھ پیچھے کھینچنے کا طریقہ رائج ہے۔
ہم پردیس میں رہتے ہوئے یہاں موجود عزیز و اقارب کو من چاہے خوبصورت رنگوں میں دیکھنے کے عادی تھے، ہر طرف پیار، محبت، احترام اور تواضع کرتے دیکھتے تھے۔ اب جو زمین پر اترے تو سب کے اصل رنگ دیکھنے پڑے۔ بات شروع ہوتی وہ جانے کن کن گمانوں، بہتانوں تک جا پہنچتی۔ کہاں ہم سوچ کر آئے تھے کہ اگلے کچھ سال اپنوں کے قریب، پاس پاس رہیں گے اور کہاں ہم نے سب کے فون نمبر ہی بلاک کردیے کہ خدارا میں اپنی زندگی کو سنبھالنے کی کوشش میں ہوں مجھے اور پریشاں مت کیا جائے۔
مگر پریشانیاں اور بدگمانیاں تھیں کہ تالے اور حدیں توڑتی میری طرف بھاگتی چلی آتیں۔ روز روز کے بڑھتے دباؤ سے پریشان ہوکر میں میاں کو فون کرتی، ان سے لڑتی۔ وہ کبھی سمجھاتے کبھی بگڑ جاتے۔ کرم فرما، محبت کرنے والے روز بروز داستانوں میں اضافہ کرتے جاتے حتیٰ کہ ایسے ایسے عزیز و اقارب کے اقوال زریں ہمارے بارے میں ہم تک پہنچتے جن کے نام تک ہم اتنے سالوں میں بھول چکے تھے۔
ہمیں کیا خبر تھی کہ خاندان کی اجازت کے بغیر اپنے ملک میں واپس آنا اس قدر بڑا گناہ تھا جو ہم سے ہوگیا تھا۔ ہاں، اگر ہم میاں بیوی دونوں ہی جوان ہوتے تو یہ پریشانی سمجھ بھی آتی تھی، مگر اب تو ہم خود بچوں کے والدین تھے، عمر کے 40ویں کو پار کرچکے تھے اور سالہا سال سے ایک دوسرے ملک میں صرف اپنے بل بوتے پر رہ رہے تھے، نہ صرف رہ رہے تھے بلکہ کسی سپورٹ سسٹم کے بغیر ہر طرح کی مشکل سے پار اتر رہے تھے، مگر اب سپورٹ سسٹم کے بیچ میں بُری طرح کچلے جا رہے تھے اور اپنی زندگی کی بہتری کے لیے ایک فیصلہ کرنے کی سزا بھگت رہے تھے۔
جس شام میرے بیٹے کو ابوظہبی میں بخار کی شدت سے سیزر ہوئے اس وقت بیٹی اسکول سے لوٹی نہیں تھی، اس کی اسکول وین ابھی گھر کی طرف رواں دواں تھی۔ دوسری طرف میاں صاحب بھی دبئی سے بھاگتے دوڑتے ابوظہبی آرہے تھے اور گھر سے ابھی گھنٹہ بھر کے فاصلے پر تھے۔ میں کنالوں پر پھیلے ولا کے نیچے والے ہمساؤں کے دروازے بجا رہی تھی جن میں کوئی نہ تھا، بڑی وسیع گلی میں دُور دُور تک کوئی نہیں تھا، صرف ملازم اور میڈز بڑے بڑے ولاز کے اندر تھے۔ مگر اس صورتحال میں بھی ایمبولینس بلا کر بیٹے کو ہسپتال لے کر گئی اور خالی گھر کھلا چھوڑا کہ 11 سالہ بیٹی کم سے کم کھلے دروازے سے گھر کے اندر تو آسکے جس میں اس کی حفاظت کے لیے سوائے خدا کے آسرے کے کوئی نہ تھا۔
جب ہم گھر کے 4 افراد دنیا کی 3 مختلف سمتوں میں تھے، اور ہمارے ساتھ کوئی نہ تھا، تب بھی ہم سے ہمارے اپنے ہی ملک میں پوچھا جارہا تھا کہ 'کیسے کرو گی اکیلے سب کچھ'، جبکہ اب اوپر نیچے لوگ ہی لوگ تھے، ہر کنال پر قریب قریب گھر تھے، اور سب کے سب ہماری بولی سمجھتے تھے۔
جب اس قدر معاشرتی اور خاندانی دباؤ کا سامنا کیا تو سانس ہی پھول کر رہ گیا۔ میں نے سوچا رشتوں اور خاندانوں کے بیچ میرے جیسی بولڈ، خودمختار اور بہادر عورت کا یہ حشر ہو رہا ہے تو یہاں کم عمر یا نوعمر لڑکیوں کے ساتھ ان گھروں میں کیا کچھ ہوتا ہوگا؟ میں ایسے معاشرے میں عورت کو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد پر اکساتی ہوں، وہ عورت جو اپنی مرضی سے ڈھنگ سے سانس تک نہیں لے سکتی۔
ہمارے وزیرِاعظم جب یکطرفہ سوچ کے ساتھ ہمارے خاندانی نظام کی رحمتوں کا ذکر کرتے ہیں تو سچ پوچھیے ہمیں ان پر خوب غصہ آتا ہے۔ شاید انہوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں کہ خاندانوں کے نام اور نظام میں کیسے کیسے انسانوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔
خیر، اب یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ انگلستان سے واپس ایک خاتوں بیوہ اپنی جوان بیٹیوں کے ساتھ کرائے کا گھر ڈھونڈتی ڈھونڈتی ہم تک پہنچیں۔ ان کو ہم سے اوپر والا فلور مطلوب تھا چنانچہ اپنے متوقع ہمسائے دیکھنے آئی تھیں۔ جب ہمیں پتا چلا کہ وہ بھی رشتے داروں کے ہاتھوں تنگ آکر الگ گھر ڈھونڈ رہی ہیں تو ہمیں بغیر پوچھے ساری کہانی سمجھ آگئی۔ دل چاہا کہ ہم ان کو گلے لگا کر تسلی دیں کہ تپتی دھوپ میں ہمیں کوئی ہمارے جیسا مل گیا۔
لیکن بدقسمتی سے انہیں اس گھر میں جگہ نہ مل سکی جس کا ہمیں بہت افسوس ہوا کیونکہ ہم نے سوچا تھا کہ ہم ایک جیسے حالات والوں کی شاید اچھی بن جائے۔
تو پہلے 5 ماہ ہم اپنے دوستوں، مہربانوں، قدر دانوں اور پیاروں کی عظیم ترین تواضع کو ہر سمت سے سہتے اور کندن بننے کی کوشش کرتے رہے۔ اس عرصے میں ہمیں سب سے زیادہ راحت ہمارے ہمسایوں نے دی جنہوں نے مکمل طور پر ہر طرح کے حالات میں اپنے کام سے کام رکھا، کم سے کم کسی بھی مرحلے پر ہماری حدوں میں دخل اندازی کرکے ہمیں مزید ذہنی خلفشاروں میں ڈوبنے سے بچائے رکھا۔ ہمارا گھر ہی ہماری وہ واحد پناہ گاہ تھی جو ہر سمت سے بڑھتی برستی بجلیوں اور طوفانی بارشوں سے ہمیں محفوظ رکھتی تھی۔
دسمبر تک پہنچتے ہم بالآخر دوسرے گھر میں بس چکے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ اب خاندانی مسائل ختم ہوچکے تھے، بس ان کا مقابلہ کرنے کی کسی نہ کسی حد تک ہمت آچکی تھی، اور یوں روٹین کی زندگی گزر رہی تھی۔ میاں صاحب ایک ماہ میں 2 دن کا چکر لگا جاتے اس کے بعد میں تھی، گھر تھا اور 2 بچے تھے۔
میڈ کا کمرہ بیسمنٹ میں تھا جہاں وہ 7 بجے کے بعد سونے چلے جاتی تھی۔ اسی طرح ڈرائیور دن بھر گیٹ پر رہتا اور مغرب کے بعد اپنے گھر چلے جاتا۔ اکیلے ہونے کی بنا پر تمام تر ذمہ داری بہرحال میرے کندھوں پر تھی جو شاید اتنی مشکل نہ لگتی اگر آس پاس کے ماحول میں تھوڑا تحفظ کا احساس ہوتا۔
پاکستان میں عورت اکیلی رہنے کا تجربہ کرسکتی ہے مگر وہ تجربہ ہی ہوگا اور اس کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں کہ وہ کامیاب ہوگا یا ناکام۔ یہاں رہتے ہوئے مستقل یہ احساس غالب رہا کہ ہماری سلامتی ہمارے آس پاس کے لوگوں کی نیتوں اور اعمال پر منحصر ہے۔ عدم تحفظ کا یہ احساس اس قدر زیادہ تھا کہ میں نے روزانہ کی بنیاد پر صدقے کے نوافل پڑھنے شروع کردیے۔ مجھے پوری شدت سے احساس تھا کہ اب اس زمیں پر ایک خدا کے ہمارا کوئی نہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں