عدلیہ کی آزادی قابل بحث موضوع ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے بدھ کو یوم آزادی کے پیغام میں کہا ہے کہ عدلیہ قوم کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام ہوچکی ہے اور کوئی بھی اعتماد کے ساتھ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ ادارہ آزاد ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ 'ریاست کی عدالتی شاخ کی حیثیت سے ہمیں اس مبارک موقع پر اپنے آپ سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ریاست نے اپنے شہریوں کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے کا اپنا آئینی فرض پورا کیا ہے، کیا اصل اسٹیک ہولڈرز، پاکستان کی عوام کو انصاف اور غیر جانبداری، احتساب، جوابدہی اور عدالتی نظام کی آزادی پر بھروسہ اور اعتماد ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 'مجھے تشویش ہے کہ جواب اطمینان کے ساتھ ہاں میں نہیں دیا جا سکتا'۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ 'عدالتی نظام پر لوگوں کے اعتماد کا فقدان اور قانون کی حکمرانی کا خاتمہ جابرانہ اور ظالم قوتوں کے لیے ایک موقع پیدا کرتا ہے'۔
مزید پڑھیں: عدلیہ سیکیورٹی جائزے میں مداخلت نہیں کرے گی، اسلام آباد ہائیکورٹ
ان کا کہنا تھا کہ 'ایک آزاد، غیر جانبدار اور مؤثر عدلیہ قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے، معاشرے کے کمزور طبقات کے بنیادی حقوق کی حفاظت اور جبر، غربت، تنزلی اور معاشی اور معاشرتی عدم مساوات کے خلاف ایک بنیادی ضرورت ہے'۔
اپنے پیغام میں جسٹس اطہر من اللہ نے ملک کی تاریخ میں کی گئی متعدد ماورائے آئین کارروائیوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 'ایک حقیقی آزاد ادارے کے حصول، آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کی بحالی کی طرف ہمارا سفر بدستور برقرار ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام نے بہر حال آئین کے تحت چلنے والے جمہوری نظام کے قیام کے لیے انتھک محنت اور کوشش کی ہے، اس طرح کے نظام کی سب سے اہم خوبیاں مضبوط، آزاد اور مستحکم ادارے ہیں، جو آئین کی طرف سے مقرر کردہ حدود کے اندر کام کرتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ مقدمات کا بہت بڑا بیک لاگ جلدی سے ختم کیا جا سکے۔
پاکستان کے لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر کی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی مجموعی تعداد 232 لاکھ 50 ہزار ہے۔
ان میں سے 3 لاکھ 90 ہزار 713 مقدمات اعلیٰ عدلیہ، سپریم کورٹ، وفاقی شرعی عدالت، چاروں صوبائی ہائی کورٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا ہیں۔
پرچم کشائی کی تقریب
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ یوم آزادی پر پرچم کشائی کو دنیاوی رسم نہیں سمجھا جانا چاہیے، اس کے بجائے اسے خود شناسی کے موقع کے طور پر لیا جانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کے خلاف فِفتھ جنریشن وار شروع کردی گئی ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس سال کا یوم آزادی ان وکلا کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو گزشتہ برسوں میں کوئٹہ اور اسلام آباد میں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
اس کے علاوہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 14 اگست کو پرچم کشائی کی تقریب میں بلوچستان اور اسلام آباد کے متعدد سینئر وکلا کو بطور مہمان خصوصی مدعو بھی کیا۔