• KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:48pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:18pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:22pm
  • KHI: Zuhr 12:25pm Asr 4:48pm
  • LHR: Zuhr 11:56am Asr 4:18pm
  • ISB: Zuhr 12:01pm Asr 4:22pm

وزیراعلیٰ پنجاب کے دفتر کا عثمان بزدار کے زیراستعمال گاڑیوں کی تفصیلات دینے سے انکار

شائع September 22, 2021
وکیل عبداللہ ملک نے شفافیت اور معلومات کے حق کے قانون کے تحت یہ معلومات حاصل کرنے کی درخواست کی تھی — فائل فوٹو / ڈان نیوز
وکیل عبداللہ ملک نے شفافیت اور معلومات کے حق کے قانون کے تحت یہ معلومات حاصل کرنے کی درخواست کی تھی — فائل فوٹو / ڈان نیوز

وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر نے عثمان بزدار کی زیر استعمال گاڑیوں کی تفصیلات جاری کرنے سے روکنے کے لیے 'قانونی رازداری' کا دعویٰ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عثمان بزادار کے زیر استعمال گاڑیوں کی تعداد اور ان کے ماڈلز سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ کے دفتر کا کہنا تھا کہ 'پنجاب کے شفافیت اور معلومات کے حق سے متعلق ایکٹ 2013 کی دفعہ 13 (ون) (بی) کے تحت ایسی معلومات کا تبادلہ نہیں کیا جاسکتا جو قانونی رازداری کے حق میں ہو'۔

قانون کے سیکشن 13 (ون) (بی) کے مطابق جب تک متعلقہ شخص معلومات کی فراہمی پر رضامند نہ ہو، عوامی معلومات فراہم کرنے والے افسران ایسی معلومات تک رسائی سے انکار کر سکتے ہیں جس کی فراہمی قانونی رازداری کے مفاد کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔

وکیل عبداللہ ملک نے شفافیت اور معلومات کے حق کے قانون کے تحت رواں سال جنوری میں وزیر اعلیٰ کے دفتر کو یہ معلومات حاصل کرنے کی درخواست کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت پنجاب ضبط شدہ گاڑیوں اور کمپنیوں کے حوالے سے تذبذب کا شکار

وزیراعلیٰ کے دفتر نے پنجاب انفارمیشن کمیشن کے ذریعے نو ماہ بعد وکیل کے پوچھے گئے سوال کا جواب دیا۔

دفتر نے لاگ بک کی کاپی دینے سے بھی انکار کردیا، جو استعمال ہونے والی سرکاری گاڑیوں کی تفصیلات پر مشتمل ہوتی ہے۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیر اعلیٰ کے دفتر نے بتایا کہ بزدار حکومت کی جانب سے دسمبر 2020 تک 34 کروڑ 89 لاکھ روپے کے فنڈز استعمال کیے جاچکے ہیں۔

تاہم دفتر نے وہ قانون بتانے سے انکار کیا جس کے تحت وزیر اعلیٰ نے صوابدیدی فنڈز استعمال کیے اور جن سے فنڈز کی حد واضح ہوتی ہو

شفافیت کے قانون کے تحت 'قانونی ذاتی مفاد' کا حوالہ دیتے ہوئے دفتر نے کہا کہ درخواست گزار کو مذکورہ معلوم فراہم نہیں کی جاسکتیں۔

مزید پڑھیں: سندھ کابینہ نے نئی گاڑیوں کی خریداری پر 3 سال کی پابندی عائد کردی

وزیر اعلیٰ کے دفتر نے اس سوال کا بھی جواب نہیں دیا کہ کن رولز کے تحت محکمہ خزانہ، وزیر اعلیٰ ہاؤس کے لیے اضافی/ضمنی فنڈز مختص کرتا ہے اور سوال کو مبہم قرار دیا۔

جواب موصول ہونے کے بعد وکیل عبداللہ ملک نے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب سے درکار معلومات کی عدم فراہمی کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے ایڈووکیٹ اسامہ خاور گھمن نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی زیر استعمال گاڑیاں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے خریدی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا دفتر پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 میں حاصل استثنیٰ کے تحت قانونی رازداری کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

مزید پڑھیں: سندھ حکومت کا اضافی سرکاری گاڑیاں نیلام کرنے کا فیصلہ

انہوں نے نشاندہی کی کہ پاکستان اور بھارت دونوں کے انفارمیشن کمیشن یہ قرار دے چکے ہیں زیر استعمال سرکاری گاڑیوں کی تفصیلات کی حامل لاگ بک صرف اس مفروضے پر جاری نہ کرنے اس دعوے کے لیے کافی نہیں ہے کہ اس سے کسی کی زندگی یا حفاظت کو نقصان پہنچ سکتا ہے، جبکہ اس مفروضے کی بنیاد پر معلومات کی فراہمی کے قوانین سے استثنیٰ نہیں لیا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ لاگ بک، سرکاری افسران کے اہل خانہ کی جانب سے گاڑیوں کے غیر قانونی استعمال سے متعلق انکشاف کر سکتی ہے اور اس سے یہ انکشاف بھی ہوسکتا ہے کہ جو عہدیداران گاڑیاں استعمال کر سکتے ہیں وہ اس کا حق بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کے زیر استعمال گاڑیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے سے انکار کرنا واضح طور پر غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔

عثمان خاور گھمن کا کہنا تھا کہ منتخب نمائندوں کے مؤثر احتساب کے لیے یہ جاننا عوام کا حق ہے کہ ان کے ٹیکس ان کے منتخب کردہ نمائندگان کی جانب سے کہاں خرچ کیے جارہے ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 21 ستمبر 2024
کارٹون : 20 ستمبر 2024