کورنگی فیکٹری آتشزدگی: نمونوں میں پیٹرول کی موجودگی کا انکشاف
کراچی: کیمیکل ماہرین کو مہران ٹاؤن فیکٹری سے اکٹھا کیے گئے نمونوں میں پیٹرولیم ہائیڈرو کاربن کے نشانات ملے ہیں, جہاں اگست میں آگ لگنے سے 16 مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف جامعہ کراچی کے بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی اور حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) کے صنعتی تجزیاتی مرکز کی مرتب کردہ رپورٹ میں کیا گیا۔
رپورٹ جوڈیشل مجسٹریٹ (شرقی) شیر محمد کولاچی کی عدالت میں پیش کی گئی۔
رپورٹ جس کی ایک کاپی ڈان کے پاس دستیاب ہے، میں کہا گیا ہے کہ پولیس کے تفتیش کاروں نے فیکٹری سے تقریباً 9 تھیلے شواہد اکٹھے کیے تھے جن میں دیوار کا پینٹ، بورڈ کے جلے ہوئے ٹکڑے، جوکی مشین سے لی گئی راکھ، جلا ہوا بجلی کا بورڈ اور ساکٹ، بجلی کے تار، پلاسٹک کے تھیلوں کے جلے ہوئے ٹکڑے، الیکٹرک سرکٹ اور پاور سپلائی شامل ہے۔
مزید پڑھیں: کراچی: کورنگی کی فیکٹری میں آتشزدگی، 16 افراد جاں بحق
تفتیش کاروں نے جاں بحق ہونے والے فیکٹری ورکرز کی ناک سے بھی نمونے اور کپڑوں کے ٹکڑوں سمیت دیگر نمونے بھی اکٹھے کیے تھے۔
لیبارٹری کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فراہم کردہ نمونوں کا تجزیہ کرنے کے لیے ہیڈ اسپیس تکنیک کے ساتھ گیس کرومیٹوگرافی، ماس اسپیکٹومیٹری، (جی سی اینڈ ایم ایس) کا کیمیائی طریقہ کار انجام دیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ فراہم کردہ آرٹیکلز میں پٹرولیم ہائیڈرو کاربن کے نشانات پائے جاتے ہیں ، تمام 12 نمونے انڈسٹریل یونٹ سے جمع کیے گئے ہیں۔
معاملے کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر عزت خان سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم ہائیڈرو کاربن شاید 'سمد بونڈ' گلو سے مل سکتا ہے یا فیکٹری میں مصنوعات کی تیاری میں چمڑے کے ٹکڑوں کے لیے بطور اسٹیکنگ ایجنٹ استعمال ہوتا ہے۔
ضمنی چارج شیٹ دائر
تفتیشی افسر نے زیر حراست ملزمان بشمول فیکٹری مالک حسن میتھا عرف علی میتھا، اس کی عمارت کے مالک فیصل طارق، اس کے منیجر سید عمران علی زیدی، سپروائزر ظفر علی اور فرخ احمد عرف ریحان اور ایک چوکیدار کو مبینہ طور پر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 322، 109 اور 34 کے تحت جرم کا مرتکب قرار دیا گیا چونکہ وہ جانتے تھے کہ صنعتی یونٹ مناسب قانونی اجازت، ہنگامی سامان اور ہنگامی راستوں کے بغیر رہائشی اسٹرکچر میں چلایا جا رہا ہے۔۔
انہوں نے شہری اداروں اور یوٹیلیٹیز کے چند اہم افسران پر بھی چارج شیٹ دائر کی جس میں کے الیکٹرک کے جنرل منیجر اور نئے کنکشنز کے سربراہ، کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید عرفان حسین اور ایگزیکٹو انجینئر زاہد حسین، محکمہ شہری دفاع کے ڈپٹی کنٹرولر شہاب الدین، سندھ ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد کامران خان، فائر بریگیڈ کے افسر انچارج اشتیاق احمد، شہاب الدین، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر خاور حیات، سینئر بلڈنگز انسپکٹر سلمان شاہد، کورنگی کے ایڈمنسٹریٹر اور ڈپٹی کمشنر شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 600 مربع گز کا پلاٹ کے ڈی اے نے اوورسیز پاکستانیوں کو دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مہران ٹاؤن فیکٹری آتشزدگی کیس: 12 عہدیداران کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
انہوں نے کہا کہ پاور یوٹیلیٹی، بلڈنگز ریگولیٹر اور ضلعی انتظامیہ کے افسران فیکٹری اور اس کی عمارت کے مالک کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے جو زمین کو مبینہ طور پر کمرشل مقاصد کے لیے غیر قانونی طور پر استعمال کر رہے تھے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ فائر بریگیڈ اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نامزد عہدیدار ہنگامی اخراجات، آگ بجھانے کے آلات اور کارکنوں کے لیے تربیت کی دستیابی کو یقینی بنانے کے حوالے سے فیکٹری کا معائنہ کرنے میں ناکام رہے۔
تفتیشی افسر نے بیان دیا کہ گواہوں کے بیانات کے مطابق آگ لگنے کے وقت چوکیدار زرین خان فیکٹری کے باہر موجود تھا لیکن اس نے جان بوجھ کر باہر کے لوگوں کو ورکرز کو بچانے نہیں دیا۔
چوکیدار نے ورکرز کو بچانے کے لیے فیکٹری سے نکلنے کی واحد چابیاں بھی نہیں فراہم کی تھیں۔
چارج شیٹ میں آئی او نے الزام لگایا کہ کے الیکٹرک حکام نے متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایم/ایس بی ایم لگیج کے لیے ایک تجارتی اور ایک صنعتی کنکشن کی فراہمی کی منظوری دی اور دیگر قانونی رسمی کارروائیوں کو مکمل نہیں کیا۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ 'فیکٹری کے مالکان اس کی عمارت، اس کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ شہری ایجنسیوں اور یوٹلیٹیز کمپینیوں کے اعلیٰ عہدیداروں کی غفلت اور لاپرواہی 16 ورکرز کی موت کا باعث بنی'۔
واضح رہے کہ فیکٹری میں آتشزدگی کے حوالے سے کورنگی انڈسٹریل ایریا تھانے میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 322 (قتل عام) اور 34 (مشترکہ ارادے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔