امن کی تلاش
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان رائے سازی کیلئے قائم کئے گئے چاؤپرایا ڈائلاگ (Chaophraya Dialogue) کے مشترکہ چیرمین کی حیثیت سے ان رپورٹوں کو سن کر ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان سرکاری مذاکرات دوبارہ شروع ہونے والے ہیں اور یہ کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات کے امکانات موجود ہیں-
تاہم ہمیں یقین ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت، امن کی تحریک کو جو کمزور پڑ گئی ہے، نئی قوت عطا کرنے کیلئے اہم اقدامات کریں-
ہندوستان کے وزیراعظم من موہن سنگھ کا پاکستان کا دورہ ایک ایسا قدم ثابت ہو سکتا ہے- لیکن فی الحال اس دورہ سے بھاری بھرکم توقعات نہیں کی جانی چاہئیں جیسا کہ اس قسم کی سربراہ ملاقاتوں سے توقع کی جاتی ہے بلکہ یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ صحیح معنوں میں مفاہمت ممکن ہے- اسلام آباد کے سنگھ کے دورے کے بعد دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان نئی دہلی میں سربراہ کانفرنس منعقد ہونی چاہئے-
ان دونوں دوروں سے پہلے یا اس کے بعد اسلام آباد میں ہندوستانی وزیر خارجہ کی ملاقات ان کے ہم منصب پاکستان کے وزیر خارجہ سے ہونی چاہئے- اس ملاقات سے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی کی فضا پیدا ہو گی اور انھیں موقع ملیگا کہ وہ ان مذاکرات کیلئے جن کا تعلق غیر حل شدہ مسائل سے ہے اور جو مستقبل میں بھی پیدا ہوسکتے ہیں ایک قابل عمل ایجنڈا تیارکریں- دوطرفہ تعلقات کے امکانات کا یہ ایک چھوٹا سا موقع ہے اور دونوں ممالک کو چاہئے کہ اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں-
ہندوستان کو یہ فخر ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے جبکہ پاکستان کے عوام نے دہشت گردی کے خطرے کا سامنا کرتے ہوئے جمہوریت کے حق میں یقین کے ساتھ ووٹ دیا- قومی سطح پرانتخابات کے بعد ایک منتخب حکومت نے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا- اس تاریخی موقع پر دونوں ممالک کے درمیان سرکاری دوروں کی بحالی سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اس خطے میں جمہوریت فتح مند ہوئی ہے-
ماضی کے بر عکس، پاکستان میں تمام اہم سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے موجود ہے کہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے- اسلام آباد کی سابقہ وفاقی حکومت جو اب پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی قیادت کر رہی ہے، یعنی پیپلز پارٹی ان مذاکرات کی پرزور حمایت کر رہی ہے-
اس کے نتیجے میں نوازشریف کو موقع ملیگا کہ وہ دیگر سیاسی پارٹیوں (پی پی پی، پی ٹی آئی، اے این پی، ایم کیو ایم) سے مشورہ کریں اور ہندوستان کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنے کیلئے قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کریں نیز تمام پارٹیوں کی کلیدی قیادت کے تعاون سے اعتماد سازی کے اقدامات کرنے کیلئے ایک قابل عمل لائحہ عمل ترتیب دیں-
ہندوستان کے وزیر اعظم کو بھی چاہئے کہ وہ امن کیلئے ہونے والے ان مذاکرات کی حمایت کی فضا پیدا کرنے کیلئےایک کل جماعتی قائدین کے وفد کے ساتھ پاکستان کا دورہ کریں- حالیہ برسوں میں سابقہ بی جے پی کی مخلوط حکومت نے اٹل بہاری واجپائی کی حمایت سے اس علاقے میں قیام امن کیلئے جرات مندانہ پہل کی تھی-
اگر ہندوستان کو اس بات پر تشوہش ہے کہ ممبئی میں 26/11 کے دہشت گردوں کے حملوں کے مجرموں کے خلاف مقدموں میں پاکستان کی جانب سے سست روی کا مظاہرہ ہو رہا ہے تو پاکستان میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ بہت سے دو طرفہ مسائل کو حل کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں ہو رہی ہے-
اگرچہ کہ یہ محسوس ہو رہا تھا کہ بہت سے مسائل پر اتفاق رائے ہو چکا تھا لیکن وہ جوں کے توں موجود ہیں- یہ بات واضح ہے کہ موجودہ اسٹراٹیجک تعطّل بحران کے بعد سے پیدا ہونے والے طوفان کو ختم کرنے میں ناکام رہا- اس کے برعکس یہ اس عزم اور محرّک کو، جسکی امن کو ضرورت ہے، ایک خطرناک موڑ دے رہا ہے-
یہ سوچ کہ ان مسائل کو ان مذاکرات کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہئے، ہندوستان اور پاکستان کے ٹریک 2 کے مذاکرات سے علیحدہ نہیں ہے- حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ مہینہ میں چاؤپرایا ڈائیلاگ (Chaopraya Dialogue) کی بارہویں نشست میں، جس میں دونوں ممالک کے اراکین پارلیمنٹ، سابقہ سرکاری افسر، جنرلز، سفارت کار، دانشور اور صحافی شریک تھے، اس بات پر مشترکہ طور پر زور دیا گیا کہ تعطّل سے نکلا جائے اور اطمینان بخش طور پر تعلقات نئے سرے سے معمول پر لائے جائیں-
اس سمت میں پیش قدمی کرنے کیلئے ضروری نہیں کہ کوئی لائحہ عمل دوبارہ مرتب کیا جائے- اس نشست میں جو سفارشات پیش کی گئیں اس میں یہ کہا گیا ہے کہ جموں اور کشمیر پر پس پشت مذاکرات کئے جائیں جو کہ فعال ہوں نہ کہ رسمی- 1983 میں وزراء کی سطح پر جو ہند و پاکستان مشترکہ کمیشن قائم کیا گیا تھا اسے بحال کیا جائے جسے سرکاری طور پر یہ اختیار ملنا چاہئے کہ وہ پرانے اور نئے مسئلوں کو حل کرے مثلاً ویزا، سفر اور مواصلات کی سہولتیں اور دونوں ممالک کے وزرائے دفاع کے درمیان وقتاً فوقتاً مذاکرات ہوتے رہیں-
تاریخ بتاتی ہے کہ یقین واعتماد نے امن کی تعمیر میں ہمیشہ اہم رول ادا کیا ہے- تاہم قدامت پسند اور خطروں سے گھبرانے والے بیوروکریٹس نے باقاعدگی سے دانستہ طور پر اس قسم کے تبادلوں کی اہمیت سے انکار کیا ہے-
لگ بھگ 66 سال کے دوطرفہ تنازعے کے بعد مختلف سطحوں پراعلیٰ سطح سے لیکر جائنٹ سکریٹری کی سطح تک مذاکرات کی بحالی سے اس علاقے پر کثیرالطرفہ اثرات نمودار ہو سکتے ہیں جہاں کثیر الطرفہ تبدیلیوں کی ضرورت ہے- اسلام آباد کئی دفعہ دوروں اور مذاکرات کو آگے بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرچکا ہے- نئی دہلی نے بھی اس کا جواب دیا لیکن جلد ہی رک گیا-
اب وقت آگیا ہے کہ وزیر اعظم سرد جنگ کے سخت لبادے سے باہر نکلیں جس میں پاکستان اورہندوستان کے تعلقات محصور ہو چکے ہیں اور بر صغیر کے عوام کوامیدوں اور توقعات کا ایک نیا احساس دیں-
دونوں ممالک کے عوام کے درمیان حقیقی مفاہمت کیلئے معنی خیزاقدامات بے حد اہمیت کے حامل ہیں-
ہندوستان میں قدامت پسندی کی سوچ کے برعکس، پاکستان کی جانب یکطرفہ پیش قدمی کو ایک سیاسی بوجھ سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے- جیسا کہ حالیہ آسٹریلیا انڈیا انسٹیٹیوٹ - لووی پول سے ظاہر ہے، جس کے مطابق ہندوستان کی بھاری اکثریت پاکستان کو خطرہ سمجھتی ہے-
دونوں ممالک کے 90 فی صد عوام امن چاہتے ہیں اور اتنے ہی فی صد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تعلقات میں حقیقی بہتری لانے کیلئے دونوں ممالک میں جرآت مندانہ قیادت کی ضرورت ہے- اس سے بڑھ کر تو یہ کہ 80 فی صد لوگوں کی رائے تھی کہ ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ امن قائم کرنے کی کوششوں میں پہل کرنی چاہئے-
پول سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ وزیر اعظم اگر پاکستان کا دورہ کریں اور مذاکرات میں پیش قدمی کریں تو انھیں اپنے ملک میں عوام کی حمایت حاصل ہو گی- ہمیں یقین ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک کی سیاسی جماعتیں ایسے اقدامات پر اتفاق رائے کریں جس کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی ممالک میں امن کی فضا سازگار ہو-
ترجمہ: سیدہ صالحہ