میانمار: روہنگیا پناہ گزینوں کا فیس بُک پر 150ارب ڈالر کا مقدمہ
میانمار کے روہنگیا پناہ گزینوں نے میٹا پلیٹ فارم المعروف فیس بک پر 150 ارب ڈالر کا مقدمہ کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنی نے تشدد کو جنم دینے والی روہنگیا مخالف نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کارروائی نہیں کی۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق قانونی کمپنیوں ایڈلسن پی سی اور فیلڈز پی ایل ایل سی کی طرف سے پیر کو کیلیفورنیا میں درج کی گئی شکایت میں موقف اپنایا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے پولیس کی جانب سے فراہم کردہ پابندیوں کی پیروی میں ناکامی کی وجہ سے روہنگیا برادری کے خلاف پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔
مزید پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر میانمار کے خلاف عالمی عدالت میں کیس
برطانوی وکلا نے فیس بک کے لندن آفس میں نوٹس کا ایک خط بھی جمع کرایا ہے لیکن فیس بک نے قانونی چارہ جوئی کے حوالے سے تبصرہ کرنے کے لیے رائٹرز کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
فیس بک نے موقف اپانیا ہے کہ بک میانمار میں غلط معلومات اور نفرت کو روکنے میں ان کی کارروائی بہت سست" تھی اور کہا ہے کہ اس نے اس خطے میں پلیٹ فارم کی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں کریک ڈاؤن کرنے کے لیے اقدامات بھی کیے جس میں یکم فروری کو فوجی بغاوت کے بعد فیس بک اور انسٹاگرام پر پابندی بھی شامل ہے۔
فیس بک نے کہا ہے کہ وہ سیکشن 230 کے نام سے جانے والے امریکی انٹرنیٹ قانون کے تحت صارفین کی جانب سے پوسٹ کیے گئے مواد کا ذمے دار نہیں جہاں اس قانون میں کہا گیا ہے کہ آن لائن پلیٹ فارم تیسرے فریق کے ذریعے پوسٹ کیے گئے مواد کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں۔
شکایت میں کہا گیا ہے کہ اگر سیکشن 230 کو دفاع کے طور پر اٹھایا جاتا ہے تو وہ ایسی صورت میں میانمار کے قانون کو لاگو کرنے کے لیے کوششیں کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: روہنگیا مہاجر کیمپوں میں آتشزدگی، ہزاروں گھر خاکستر
اگرچہ امریکی عدالتیں ایسے معاملات پر غیرملکی قانون کا اطلاق کر سکتی ہیں جہاں کمپنیوں کی طرف سے مبینہ نقصانات اور سرگرمیاں دوسرے ممالک میں سرزد ہوئی ہوں لیکن قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف مقدمات میں غیر ملکی قانون کے استعمال کی کوئی بھی کامیاب مثال نہیں ملتی جہاں جہاں سیکشن 230 لاگو ہو سکتا ہو۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی لا سینٹر کے پروفیسر انوپم چندر نے کہا کہ میانمار کے قانون کو استعمال کرنا نامناسب نہیں تھا لیکن اس کے کامیاب ہونے کا امکان نہیں، کانگریس کے لیے یہ عجیب بات ہوگی کہ وہ فیس بُک کو امریکی قانون کے تحت پیشگی اقدامات کرے لیکن انہیں غیر ملکی قانون کے تحت کام کی اجازت دے۔
اگست 2017 میں 7لاکھ 30ہزار سے زیادہ روہنگیا مسلمان میانمار کی ریاست راخائن میں فوجی کریک ڈاؤن کے بعد فرار ہو گئے تھے جہاں روہنگا مسلمانوں نے فوج پر اجتماعی قتل اور گینگ ریپ کے الزامات عائد کیے تھے۔
فیس بک کے خلاف قانونی کارروائی پر تبصرہ کرنے کے حوالے سے جب میانمار کے جنتا کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے فون کالز کا جواب نہیں دیا۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش: طوفان کے باعث روہنگیا کیمپوں میں ہزاروں افراد بے گھر
2018 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تفتیش کاروں نے کہا تھا کہ فیس بک کے استعمال نے نفرت انگیز تقاریر کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا اور تشدد کو ہوا دی۔
اس سال رائٹرز کی تحقیقات میں کے مطابق فیس بک پر روہنگیا اور دیگر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی پوسٹس، تبصروں اور تصاویر کی ایک ہزار سے زائد مثالیں ملتی ہیں۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت نے خطے میں ان جرائم کے الزامات پر کارروائی کا آغاز کیا تھا اور ستمبر میں ایک امریکی وفاقی جج نے فیس بک کو میانمار میں ان روہنگیا مخالف اکاؤنٹس کے ریکارڈ جاری کرنے کا حکم دیا تھا جسے سوشل میڈیا کمپنی نے بند کر دیا تھا۔
لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی طرح بنگلہ دیش میں وسیع کیمپوں میں رہنے والے ایک پناہ گزین محمد طاہر نے کہا کہ فیس بک کو روہنگیا مخالف پروپیگنڈا کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا اور ہم اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں۔