• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

حکومت کا نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو بلاضمانت قرضے فراہم کرنے کا اعلان

شائع December 15, 2021
خسرو بختیار نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں 10 لاکھ مینوفیکچررز کام کر رہے ہیں — فوٹو: پی آئی ڈی
خسرو بختیار نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں 10 لاکھ مینوفیکچررز کام کر رہے ہیں — فوٹو: پی آئی ڈی

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چھوٹے اور متوسط درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) کے فروغ کے لیے انقلابی پالیسی تیار کی گئی ہے، نیا کاروبار شروع کرنے والوں کو بلاضمانت قرضے فراہم کیے جائیں گے جبکہ کاروبار میں نقصان کا بوجھ بھی حکومت اٹھائے گی۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائےصنعت و پیداوار خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ کل وفاقی کابینہ نے ایس ایم ای پالیسی منظور کی ہے، جس کے تحت نئے کاروبار کرنے والوں کو قرضے دیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں 10 لاکھ مینوفیکچررز کام کر رہے ہیں، جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، 78 فیصد نمو ایس ایم ای کا شعبہ فراہم کر رہا ہے، اس لیے ہم نے اس پر قانون سازی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی میں ایس ایم ایز کے ذریعے کاروبار شروع کرنے والے کے اخراجات کم کیے گئے ہیں جس کے بعد زیرو ٹائم انویسٹمنٹ سے کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے، یہ پالیسی پنجاب اور بلوچستان میں نافذ ہوچکی ہے اور خیبر پختونخوا میں بھی اس کا نفاذ جلد کردیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: خسرو بختیار، رشتہ داروں کی شوگر ملز کو ایف آئی اے کی جانچ پڑتال کا سامنا

اس موقع پر وفاقی وزیر نے سندھ حکومت سے بھی ایس ایم ای پالیسی میں حصہ ڈالنے کی درخواست کی۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ ایس ایم ای کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں لو رسک، میڈیم اور ہائی رسک میں رکھا گیا ہے، لو رسک میں ٹرانسپورٹ، پبلک سروس سیکٹر، ہول سیل کو شامل کیا گیا ہے جس کے لیے این او سی کی ضرورت نہیں ہے، میڈیم رسک میں آٹو پارٹس، کٹلری، اسپورٹس وغیرہ شامل ہیں، اس کو 30 روز کے لیے این او سی دیا جائے گا جبکہ ہائی رسک میں بوائلرز وغیرہ سے متعلق کاروبار کو شامل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاروبار کے لیے این او سیز کے دفاتر سے جان چھوٹ گئی ہے، ہم نے ایک پورٹل بنایا ہے اس میں سیلف ڈیکلیئریشن کی 2 فیصد نگرانی ہوگی اور فنڈنگ کے حوالے سے تاریخ اور دفاتر کے بارے میں بھی پورٹل کو آگاہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پالیسی کے ذریعے کاروبار میں رسک کے حوالے سے مختلف قوانین پر بھی نظر ثانی کی جارہی ہے، ایس ایم ای کے لیے کئی قوانین زیر غور ہیں جو ہم جنوری کے اختتام تک لے کر آئیں گے۔

مزید پڑھیں: گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوگئی، اطلاق ایک دو روز میں ہوجائے گا، خسرو بختیار

ان کا کہنا ہے کہ رواں سال کے بجٹ میں حکومت نے مینوفیکچر سیکٹرز کے ٹیکس کے لیے ادائیگی کم کردی ہے، جس کی آمدنی 10 کروڑ سے کم ہے وہ 0.25 فیصد اور جن کی آمدنی 10 سے 25 کروڑ ہے ان کے لیے ٹیکس 0.5 کردیا ہے، اور یہ فکس ہوگا۔

خسرو بختیار نے بتایا کہ ویمن انٹر پرائزز کے ٹیکس میں 25 فیصد چھوٹ دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قرضوں کے حوالے سے آسان فنانس اسکیم لا رہے ہیں، جس میں وفاقی حکومت اور بینک بغیر ضمانت کے ایک کروڑ تک کا قرضہ دیں گے اور اگر کاروبار میں نقصان ہوتا ہے تو وہ حکومت اور کمرشل بینکز برداشت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایس ایم ایز کے لیے سب سے بڑا مسئلہ زمین کا ہے جس کے لیے پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومتیں آسان اقساط پر قرضے دیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی پالیسی میں 5 ارب روپے سمیڈا فنڈز کے لیے مختص کیے گئے ہیں جس کے تحت ایس ایم ایز سینٹرز قائم کریں گے۔

مزید پڑھیں: کل سے آٹے کی قیمت میں کمی آنا شروع ہوجائے گی، خسرو بختیار

ان کا کہنا تھا کہ پہلی بار پالیسی کے ساتھ نفاذ کا میکانزم بھی تیار کیا گیا ہے جس میں تاریخ بھی درج کی گئی ہے کہ کس محکمے نے کس تاریخ کو کیا کام کرنا ہے۔

خسرو بختیار نے کہا کہ اگر کاروبار میں ایک کروڑ تک کا نقصان ہوگا تو حکومت اور کمرشل بینک کاسٹ شیئرنگ کریں گے، یہ ایک انقلابی اقدام ہے اس سلسلے میں کاروبار کا منصوبہ کمرشل بینک سے منظور کروایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ کمرشل سیکٹر کو بجلی کے استعمال پر 30 فیصد چھوٹ دی جارہی ہے اور ہم صنعت کاروں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ کمرشل سے انڈسٹریل کنکشن میں آئیں اور اس سے مستفید ہوں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومتی قرضوں پر شرح سود 9 فیصد ہوگی۔

اس موقع پر فواد چوہدری نے کہا کہ ہم ملکی معیشت میں بہت بڑی تبدیلی لائے ہیں، ہماری پوری معیشت کا انحصار درآمدات پر تھا، دبئی اور سنگاپور کی طرح ہم درآمدات پر گزارا نہیں کر سکتے، پاکستان کو ایک مضبوط صنعتی بنیاد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم 22 کروڑ عوام کا ملک ہیں، ہم ملک میں مضبوط انڈسٹریل بیس نہ دے پائے تو معاشی مسائل سے باہر نہیں نکل پائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت تجارت نے پالیسی ترتیب دی ہے جس سے ایس ایم ای سیکٹر میں سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024