پشاور ہائیکورٹ: کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، پی ٹی ایم رہنما بغاوت کے الزام سے بری
پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں کے خلاف بغاوت سمیت متعدد الزامات کے تحت درج مقدمات خارج کردیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس لعل جان خٹک اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے صوبائی حکومت سمیت مختلف فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر سابق وزیر اعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر، پی ٹی ایم رہنماؤں سابق خاتون رکن قومی اسمبلی جمیلہ گیلانی، ڈاکٹر سید عالم محسود، ثنا اعجاز، عبدالحمید خانند اور وکلا شہاب خٹک، فضل خان، رحیم شاہ اور فرہاد آفریدی سے متعلق کیسز میں فیصلہ سنایا۔
رواں سال کے آغاز میں ہائی کورٹ نے اسی کیس میں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی عبوری ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی، جبکہ گزشتہ سال جولائی میں پی ٹی ایم رہنماؤں کے لیے بھی یہی فیصلہ سنایا گیا تھا، عدالت نے گزشتہ ماہ مقدمات کو ضم کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف نیب کا وارنٹ گرفتاری بدنیتی پر مبنی ہے، عدالت
پی ٹی ایم کے مرکزی رہنما منظور پشتین کی گرفتاری کے بعد احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے جس کے بعد 29 جون 2020 کو پی ٹی ایم رہنماؤں کے خلاف کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن شرقی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 123 اے (قیام پاکستان کی مذمت)، 124 اے (بغاوت)، 120 اے (مجرمانہ سازش) اور 153 اے (گروپس کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے) اور بپلک آرڈیننس کی بحالی کی دفعہ 16 شامل کی گئی تھی۔
پی ٹی ایم رہنماؤں کی جگہ ان کے وکیل عبدالطیف رؤف، طارق افغان، شہاب خٹک خان اور شاہ محمود عدالت میں پیش ہوئے اور ان کے مؤکلان کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ مقدمہ بدنیتی اور جھوٹے الزامات پر درج کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے من مانی کرتے ہوئے مقدمہ درج کیا اور درخواست گزاروں کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کارکنان نے احتجاجی مظاہرے کے دوران ریاستی اداروں کے خلاف قابل اعتراض نعرے لگائے گئے، جبکہ یہ حقیقت کے برعکس ہے اور احتجاجی مظاہرے کے دوران ایسا کچھ نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: کیپٹن(ر) صفدر کےخلاف ایف آئی آر ‘جعلی’ قرار دینے پر وفاقی حکومت کی عدالت میں درخواست
ان کا مزید کہنا تھا کہ خطابات اور نعروں کا مقصد آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی اور پی ٹی ایم رہنما منظور پشتین کو رہا کرنا تھا۔
اسی طرح کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف 9 فروری 2021 جو کنٹونمنٹ پولیس اسٹیشن شرقی میں ایس ایچ او عمران نواز عالم کی جانب سے مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس کے بعد وہ عدالت میں پیش ہوئے اور ہائی کورٹ کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کی۔
ایس ایچ او نے ایف آئی آر میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے خیبر پختونخوا حکومت کی تحریری اجازت کے بعد مقدمہ درج کیا ہے۔
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 121 (ملک کے خلاف فساد)، 121 اے (ملک کے خلاف جنگ کی سازش کرنا)، 124 اے (بغاوت)، 131 (بغاوت یا بغاوت کی سازش)، 153 (فساد برپا کرنے کے لیے اشتعال انگیزی) اور 505 (فساد برپاکرنے کا بیان) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ایس ایچ او نے دعویٰ کیا کہ محمد صفدر نے پریس کانفرنس میں پاکستان اور اس کے اداروں کو بدنام کرنے اور اداروں میں بدنظمی پھیلانے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: کیپٹن (ر) صفدر کےخلاف مزار قائد کی بے حرمتی کا مقدمہ خارج
انہوں نے الزام لگایا تھا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے غلط الزام کے ذریعے عوام کو حکومت اور اداروں کے خلاف اکسایا اور مسلح افواج اور اس کی قیادت کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی کوشش کی۔
مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے آمر حکمران ایوب خان، یحیٰ خان، ضیاالحق اور پرویز مشرف کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال کیا۔
ایڈووکیٹ لطیف آفریدی، منظور خلیل اور طارق افغان عدالت میں پیش ہوئے اور دلیل دی کہ ان کے مؤکل کے خلاف من گھڑت کیس بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کے مؤکل نے میڈیا پر جو بیان دیا اس میں بغاوت یا مقدمے میں درج کردہ جرائم کا ارتکاب نہیں کیا گیا، انہوں نے میڈیا کے سامنے کچھ تاریخی حقائق کی نشاندہی کی تھی جو قابل اعتراض نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف مقدمات سیاسی سازش ہے۔
دونوں کیسز میں درخواست گزاروں کے وکلا نے دلیل دی کہ عدالت کے دوبارہ حکم کے باوجود مقامی پولیس نے ویڈیوز کی ٹرانسکرپٹ پیش کی نہ ہی کلپ کی فرانزک کروائی۔