• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

افغانستان کو ایک حکومت تلے متحد کرنا ممکن نہیں، جو بائیڈن

شائع January 21, 2022
امریکی صدر کی وائٹ ہاؤس میں نیوز کانفرنس—تصویر: اے ایف پی
امریکی صدر کی وائٹ ہاؤس میں نیوز کانفرنس—تصویر: اے ایف پی

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ انہوں نے افغانستان سے اپنی افواج اس لیے واپس بلا لیں کیونکہ جنگ زدہ ملک کو ایک حکومت کے تحت متحد کرنا ممکن نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی ایک نیوز کانفرنس میں جوبائیڈن نے یہ بھی کہا کہ امریکا 20 برسوں سے افغانستان میں ہر ہفتے ایک ارب ڈالر خرچ کر رہا تھا اور غیر معینہ مدت تک ایسا کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔

خیال رہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ سال اگست میں افغانستان سے فوجیوں کا انخلا شروع کیا تھا جسے طالبان نے پُر کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی انخلا سے قبل ہی افغان فضائیہ کی ناکامی کے حوالے سے خبردار کیے جانے کا انکشاف

طالبان 15 اگست کو کابل میں داخل ہوئے اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کی جگہ سنبھال لی تھی۔

اس کے بعد سے طالبان نے امریکا کی جانب سے دوسری سیاسی قوتوں کو حکومت میں شامل کرنے، افغان خواتین اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی اپیلوں ہر نظر انداز کیا ہے جس کی ضمانت امریکی حمایت یافتہ افغان آئین میں دی گئی تھی۔

صدر جو بائیڈن نے اپنی حکومت کی مبینہ نااہلی پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'آئیے افغانستان کو لے لیں، میں جانتا ہوں کہ آپ سب اس پر توجہ مرکوز کرنا چاہیں گے، جو کہ جائز ہے' ۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر آپ کو لگتا ہے کہ کوئی بھی افغانستان کو ایک ہی حکومت کے تحت متحد کرنے کے قابل ہے تو اپنا ہاتھ اٹھائیں، یہ ایک ٹھوس وجہ سے سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے کیوں کہ یہ اتحاد کے لیے مؤثر نہیں ہے'۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے انخلا کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان پہلے مذاکرات

انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے گزشتہ سال جنوری میں حکومت سنبھالی تو انہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا ریاست افغانستان میں ہر ہفتے اتنی رقم خرچ کرتے رہنا ہے؟ یہ جانتے ہوئے کہ یہ خیال مزید تابوت گھر بھیجنے کے علاوہ، کامیاب ہونا انتہائی غیر معمولی ہے اس لیے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔

تاہم امریکی انخلا کے بعد سے کیے گئے رائے عامہ کے سروے بتاتے ہیں کہ زیادہ تر امریکی اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔

ایک حالیہ سروے سے پتا چلتا ہے کہ 'تمام امریکیوں میں سے دو تہائی اور 10 میں سے 7 سابق فوجی' اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔

بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے مطابق امریکا میں تقریبا ً7 لاکھ 75 ہزار افغان جنگ کے سابق فوجی موجود ہیں، جن میں سے بہت سے ڈیوٹی کے متعدد دورے کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے انخلا اور امریکا کی ویتنام جنگ میں ناکامی کا موازنہ

بروکنگز نے مزید کہا کہ 'وہ واپسی پر ناراض ہیں، 73 فیصد اپنے آپ کو دھوکہ کھایا ہوا محسوس کرتے، اور 67 فیصد ذلت محسوس کرتے ہیں' ۔

فیصلے سے پریشان ہونے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ 20 سال بعد افغانستان سے آسانی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ' یہ ممکن نہیں چاہے آپ نے جب بھی یہ کیا ہو اور جو کچھ میں نے کیا اس کے لیے میں معذرت خواہ نہیں ہوں'۔

جو بائیڈن نے کہا کہ یہاں تک کہ امریکی فوج بھی اس بات کو تسلیم کرے گی کہ 'اگر ہم ٹھہرے رہتے، تو ہمیں 20 سے 50 ہزار کے درمیان مزید فوجیوں کو واپس بھیجنے کو کہا جاتا'۔

امریکی نے اپنے ناقدین کو یاد دلایا کہ یہ ان کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ تھے جنہوں نے طالبان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکا کو 15 مئی 2021 تک اپنی فوجیں نکالنے کی ضرورت تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024