• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

کے سی آر منصوبے کیلئے 220 ارب کی لاگت کا ٹرانزیکشن اسٹرکچر منظور

شائع January 26, 2022
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کا اجلاس وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کی زیر صدارت ہوا۔— فوٹو: ٹوئٹر
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کا اجلاس وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کی زیر صدارت ہوا۔— فوٹو: ٹوئٹر

حکومت نے کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر)کی تعمیر اور آپریشن کے لیے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت 220 ارب روپے کی تخمینہ لاگت کے ٹرانزیکشن اسٹرکچر کی منظوری دے دی ہے،

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی بورڈ (پی 3 اے) کے ذریعہ منظور کردہ ٹرانزیکشن اسٹرکچر کے تحت نجی شعبہ اس منصوبے کو فنانس کرنے، ڈیویلپ کرنے اور چلانے کا ذمہ دار ہوگا۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اتھارٹی کا اجلاس وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر کی زیر صدارت ہوا۔

ذرائع کے مطابق کنسلٹنٹس/ٹرانزیکشن ایڈوائزرز کی طرف سے تجویز کردہ ٹرانزیکشن اسٹرکچر میں 33 سالہ پروجیکٹ لائف پر بجلی اور بڑے آپریشن اور مینٹیننس اخراجات کے لیے تقریباً 533 ارب روپے کی سرکاری سبسڈی تجویز کی گئی تھی جسے بورڈ نے مسترد کر دیا تھا۔

منصوبے کی لاگت کا تخمینہ ابتدائی طور پر تقریباً 201 ارب روپے لگایا گیا تھا جس میں 20.7 ارب روپے کے لوپ سیکشن کو شامل نہیں کیا گیا تھا تاکہ پہلے سے ہی زیرعمل 22 کراسنگز سے بچا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: ’کراچی سرکلر ریلوے جلد بحال ہوجائے گی‘

یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک نظرثانی شدہ امبریلا پی سی-ون سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کے پاس جمع کرائی جائے جس میں لاگت کا حتمی تخمینہ لگایا جائے۔

بورڈ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ لاگت کے نظرثانی شدہ تخمینوں کی بنیاد پر وفاقی حکومت منصوبےکو 40 فیصد فنانس کرے گی جو کہ تقریباً 80 سے 90 ارب روپے ہوگا، اس سے کنسیشنز کو شروع میں یعنی پہلے تین سال میں یہ منصوبہ چلانے میں مدد ملے گی۔

40 فیصد (80 سے 90 ارب روپے)حکومتی لاگت کی تقسیم کے معاملے پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی بورڈ نے فیصلہ کیا کہ ریلوے بورڈ سے کے سی آر پروجیکٹ کے راستے میں 13 پراپرٹیز کو 99 سال کے لیے لیز پر دینے کے لیے کہا جائے گا تاکہ ابتدائی فنانسنگ کو پورا کیا جا سکے کیونکہ منافع بالآخر پاکستان ریلوے کو ہی ملے گا۔

پاکستان ریلوے بورڈ کے اختلاف کی صورت میں وفاقی حکومت اس منصوبے کو پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) سے فنڈنگ فراہم کرے گی لیکن پھر اس فنڈنگ پر حاصل کیا گیا ریٹرن پاکستان ریلوے کی بجائے وفاقی حکومت کو بھیجا جائے گا۔

مزید پڑھیں: کراچی سرکلر ریلوے جزوی بحال، شیخ رشید نے افتتاح کردیا

اگلے 30 سالوں کے لیے کنسیشنر اس منصوبے کے آپریشن کا ذمہ دار ہوگا۔

بورڈ نے کنسیشنر کو مینیمم ریونیو گارنٹی (ایم آر جی) فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ ہدف کے مطابق سواریوں سے کم کی صورت میں سہولت فراہم ہو۔

اس ایم آر جی کمفرٹ کے تحت کنسیشنر صارفین/سواریوں کی تعداد ٹارگٹ سے 15 فیصد کم ہونے کو برداشت کرلے گا، بڑا فرق آنے کی صورت میں تخمینہ اور صارفین کی اصل تعداد کے درمیان 15 فیصد سے زیادہ کی کمی کو حکومت اور ٹھیکیدار 50/50 کے تناسب کی بنیاد پر بانٹیں گے۔

کنسلٹنٹس نے رسک شیئرنگ کا بھی مشورہ دیا تھا یعنی تخمینے سے کم سواریوں کی تعداد کی صورت میں حکومت اور ٹھیکیدار کے درمیان 80/20 کا تناسب ہونا چاہیے لیکن پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ اتھارٹی بورڈ نے اسے مسترد کر دیا۔

تخمینہ سے زیادہ سواری کی صورت میں غیر متوقع آمدن کا فائدہ بھی اسی اصول کے تحت ہوگا، ٹھیکیدار 15 فیصد زیادہ سواریوں تک کے فائدے کو حاصل کرے گا اور حکومت کے ساتھ ٹارگٹڈ مسافروں کے مقابلے میں 15 فیصد سے زیادہ کا فائدہ 50/50 تناسب کی بنیاد پر حاصل کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی پہنچنے والی کے سی آر کی کوچز میں کیا سہولیات موجود ہیں؟

بورڈ نے کے سی آر کے پروجیکٹ پروپوزل کے اہم اعدادوشمار اور اجزا کا جائزہ لیا جس میں اس پروجیکٹ کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر تعمیر کرنے کا تصور دیا گیا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر سول ورکس کی کنسٹرکشن، الیکٹریکل اور مکینیکل اجزا بشمول رولنگ اسٹاک کی خریداری اور پروجیکٹ کے آپریشنز اینڈ مینٹیننس کے لیے ایک ہی پیکج کے معاہدے کے تحت اپنے وسائل سے مالی اعانت فراہم کرنے کا ذمہ دار ہوگا۔

ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹرینوں کے چلانے کے اخراجات، ماحولیاتی تحفظ، حادثات اور وقت کی بچت، صنفی مساوات کے فروغ اور ٹیکس اثرات سے بچنے کے لحاظ سے اس منصوبے کے معاشی فوائد غیر معمولی ہیں۔

مزید پڑھیں: کے سی آر منصوبے میں التوا پر سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کردیا

اسد عمر نے منصوبے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان (کے ٹی پی) کا ایک اہم حصہ ہے اور کراچی والوں کو ایک سستا اور قابل اعتماد پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ بورڈ کی جانب سے کے سی آر پروجیکٹ کی منظوری کے ساتھ ہی کراچی-پپری فریٹ کوریڈور پروجیکٹ کے لیے تخمینے کا عمل بھی جلد مکمل کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ منصوبہ کراچی بندرگاہ پر بھیڑ کو کم کرنے کے حوالے سے بھی اہم ہے۔

پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ بورڈ کے ذریعہ منظور شدہ اس منصوبے کو اس کے ٹرانزیکشن اسٹرکچر کے ساتھ اب قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ذریعہ باضابطہ توثیق کے بعد مارکیٹ میں لے جایا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024