• KHI: Maghrib 7:02pm Isha 8:24pm
  • LHR: Maghrib 6:43pm Isha 8:12pm
  • ISB: Maghrib 6:52pm Isha 8:24pm
  • KHI: Maghrib 7:02pm Isha 8:24pm
  • LHR: Maghrib 6:43pm Isha 8:12pm
  • ISB: Maghrib 6:52pm Isha 8:24pm

اراضی کے ریکارڈ کیلئے اب تک پٹواری نظام کو فوقیت حاصل

شائع February 3, 2022
وزیراعظم عمران خان کی احتساب مہم کا ایک بنیادی نکتہ لینڈ مافیاز اور پٹواری نظام کا خاتمہ تھا—فوٹو: نبیل انور ڈھاکو
وزیراعظم عمران خان کی احتساب مہم کا ایک بنیادی نکتہ لینڈ مافیاز اور پٹواری نظام کا خاتمہ تھا—فوٹو: نبیل انور ڈھاکو

پاکستان تحریک انصاف کے پٹواری نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ وفاقی حکومت کا ریئل اسٹیٹ ادارہ اراضی کے ریکارڈ کو ڈیجیٹائز کرنے اور زمین کے حصول کے عمل کو مزید شفاف بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور اس مقصد کے لیے 19ویں صدی کا قانون ہی استعمال کر رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی احتساب مہم کا ایک بنیادی نکتہ لینڈ مافیاز اور پٹواری نظام کا خاتمہ تھا جو ان کے خیال میں کرپشن کلچر کو پروان چڑھاتا ہے۔

تاہم اب سرکاری افسران کو رہائش فراہم کرنے کا ذمہ دار ادارہ اس حوالے سے مثال قائم کرنے کی بجائے 1894 کے لینڈ ایکیوزیشن ایکٹ میں طے کردہ معیار کے تحت پٹواریوں کے ذریعے اراضی حاصل کر رہا ہے۔

فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی (ایف جی ای ایچ اے) کے ایک سابق عہدیدار کے مطابق یہ ادارہ اپنے پراسیس کی کمپیوٹرائزیشن یا ریکارڈ کی ڈیجیٹائزیشن میں دلچسپی نہیں رکھتا کیونکہ روایتی طریقے کار سے مخصوص مفادات کو فائدہ پہنچتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت پنجاب کا صوبے میں دوبارہ پٹواری نظام متعارف کروانے کا امکان

تاہم ایف جی ای ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل طارق رشید نے بتایا کہ زمینی ریکارڈ کی ڈیجیٹائزیشن کے لیے اتھارٹی پرعزم ہے اور دعویٰ کیا کہ اس مقصد کے لیے تجاویز کی درخواست جاری کی گئی تھی لیکن وہ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے کوئی مناسب فرم تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

بظاہر اس سے حکومتی پالیسی میں تضاد نظر آتا ہے۔

ستمبر 2021 میں وزیراعظم خان نے اسلام آباد کے لیے ڈیجیٹلائزڈ لینڈ ریکارڈ سسٹم اور کیڈسٹرل میپ کے اجرا میں شرکت کی تھی، وہاں انہوں نے کہا تھا کہ ڈیجیٹلائزڈ لینڈ ریکارڈ سسٹم نہ صرف لینڈ مافیا کو ختم کرے گا بلکہ شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں غیر قانونی اور بےترتیب تعمیرات کو بھی کنٹرول کرے گا۔

وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد اور سربراہ ڈیجیٹل میڈیا ونگ عمران غزالی سے رابطہ کیا گیا تو دونوں نے کہا کہ وہ اس معاملے سے لاعلم ہیں کیونکہ یہ ان کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں 5 ہزار پٹواری بھرتی کیے جارہے ہیں، صوبائی وزیر

البتہ ڈاکٹر ارسلان خالد نے اس بات سے اتفاق کیا کہ حکومت نے ڈیجیٹل پاکستان پالیسی متعارف کروائی ہے اور لینڈ ریکارڈ کی ڈیجیٹائزیشن اس کا ایک لازمی حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام وزارتوں اور ڈویژنز سے کہا گیا ہے کہ وہ شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے کاموں کو ڈیجیٹائز کریں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ایف جی ای ایچ اے کے تحت اراضی کے حصول کے عمل کو ڈیجیٹائز نہ کرنے کے معاملے کو مناسب فورم پر اجاگر کریں گے۔

زیر التوا مقدمات

فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ اتھارٹی پہلی بار 1989 میں قائم کی گئی تھی اور بعد ازاں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اسے موجودہ حیثیت دی گئی۔

اتھارٹی کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق اس کے پاس سرکاری ملازمین کے لیے ہاؤسنگ اسکیموں کا اجرا کرنے، اسپانسر کرنے اور لاگو کرنے کا مینڈیٹ ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس ریٹائرمنٹ کے وقت یا اس سے پہلے اپنا گھر موجود ہو۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے شہری علاقوں میں زمین کی منتقلی میں پٹواری کا کردار ختم کردیا

یہ اتھارٹی بیوروکریسی، عدلیہ، وکلا اور صحافیوں سمیت دیگر افراد کے لیے رہائش فراہم کرتی ہے۔

ایف جی ای ایچ اے کے ایک حاضر سروس عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اتھارٹی بنیادی کاموں میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے بہت زیادہ قانونی چارہ جوئی میں الجھی ہوئی ہے جس کا ایک بڑا حصہ اراضی کا حصول اور الاٹمنٹ ہے۔

ذاتی مفادات تعطل کی اہم وجہ

حال ہی میں اتھارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے ایف جی ای ایچ اے کے سابق ڈائریکٹر آئی ٹی نجم علوی نے بتایا کہ اپنے دور ملازمت میں انہوں نے سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کے لیے متعدد تجاویز تیار کی ہیں تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے اور ہاؤسنگ اتھارٹی کے بنیادی کاموں میں انسانی مداخلت کو کم کیا جا سکے۔

ایف جی ای ایچ اے کا آئی ٹی سیکشن سال 2000 میں پراپرٹیز کا ڈیٹا بیس بنانے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور اسے 2020 میں باضابطہ طور پر اپ گریڈ کیا گیا تھا۔

نجم علوی کے مطابق جب وہ ایف جی ای ایچ اے میں خدمات انجام دے رہے تھے تب آئی ٹی سیکشن 7 سے 8 ملازمین پر مشتمل تھا جن میں 2 ڈپٹی ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور کلرک شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے متعدد افسران کو کرپشن اور فراڈ پر انکوائریز کا سامنا

انہوں نے ادارے سے اپنی علیحدگی کی وجہ بتاتے ہوا کہا کہ ’میں نے بنیادی کاموں کو کمپیوٹرائز کرنے، بنیادی ڈھانچے کو تیار کرنے اور سائبر سیکیورٹی کے لیے ڈیٹا سینٹر بنانے کے لیے کم از کم 30 تجربہ کار افراد پر مشتمل عملے کے ساتھ محکمے کی تنظیم نو کی تجویز پیش کی، لیکن میرے اعلیٰ افسران نے ان تجاویز پر کوئی توجہ نہیں دی‘۔

تاہم ایف جی ای ایچ اے کے ڈائریکٹر جنرل نے نجم علوی کی ادارے سےعلیحدگی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ نجم علوی کا تعلق چونکہ کارپوریٹ سیکٹر سے ہے اس لیے وہ خود کو سرکاری شعبے میں ایڈجسٹ نہیں کر سکے۔

ایف جی ای ایچ اے کے سینئر اہلکار نے بھی نجم علوی کے تحفظات کی تائید کی۔

مزید پڑھیں: اوقاف کی متنازع زمین کی رہائشی پلاٹوں کے طور پر فروخت کی تیاری

عہدیدار نے کہا کہ آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کو غیر فعال رکھا گیا جس کا مقصد بعض عہدیداروں کے ذاتی مفادات کو پورا کرنا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دستی طریقے سے اراضی کے حصول، ترقی اور دیگر کاموں کو کیے جانے سے اس عمل میں جوڑ توڑ کرنا آسان ہوجاتی ہے۔

تاہم ایف جی ای ایچ اے کے آئی ٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر عاصم امیر کے مطابق ان کے محکمے نے اتھارٹی کے قیام سے ہی تمام اراکین کا ڈیٹا بیس رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ اس وقت کئی دہائیوں پرانے پٹواری نظام کے ذریعے زمین کا حصول اور قیمت کا تعین کیا جارہا ہے لیکن انہیں امید ہے کہ آٹومیشن کے لیے حالیہ اقدامات کے مثبت نتائج برامد ہوں گے اور پرانا طریقہ کار آہستہ آہستہ متروک ہوجائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 1 مئی 2025
کارٹون : 30 اپریل 2025