’دہری شہریت سے متعلق ترمیم سے 20 ہزار سرکاری ملازمین متاثر ہوں گے‘
پارلیمانی کمیٹی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ سول سروس رولز میں مجوزہ ترمیم سے 20 ہزار سرکاری ملازمین متاثر ہو سکتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ معاملہ 17 جنوری 2022 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ کے اجلاس میں سینیٹر افنان اللہ خان کی جانب سے پیش کردہ 'سول سرونٹس (ترمیمی) بل 2021' پر بحث کے دوران سامنے آیا۔
مجوزہ ترمیم سرکاری ملازمین کو دہری شہریت رکھنے سے روکتی ہے اور دہری شہریت رکھنے والے سرکاری ملازمین کے لیے اپنی غیر ملکی شہریت چھوڑنے کے لیے مدت طے کرتی ہے۔
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کا مؤقف تھا کہ سرکاری ملازمین کو دوران ملازمت دہری شہریت نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ ایک شخص بیک وقت 2 ملکوں کا وفادار نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: ججز اور فوجیوں کی دہری شہریت پر پابندی کے مسودہ بل کی منظوری
دہری شہریت سے متعلق سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 22 ہزار سے زائد اعلیٰ سرکاری افسران دہری شہریت کے حامل ہیں، جن میں سے 11 ہزار افسران کا تعلق پولیس اور بیوروکریسی سے ہے۔
رپورٹ کے مطابق دہری شہریت کے حامل سرکاری افسران اس وقت داخلہ ڈویژن، پاور ڈویژن، ایوی ایشن ڈویژن، فنانس ڈویژن، پیٹرولیم، وزارت تجارت، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، وزارت اطلاعات، ریلوے اور دیگر سرکاری اداروں میں کام کر رہے ہیں۔
سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ افضل لطیف نے نشاندہی کی کہ یہ پابندی سرکاری ملازمین کی بڑی تعداد کو متاثر کرے گی، تاہم اس ترمیم پر وزارت داخلہ کا نقطہ نظر حاصل کرنا لازمی ہے۔
مزید پڑھیں: ملک میں اوورسیز پاکستانیوں اور دہری شہریت والوں کو غدار سمجھا جاتا ہے، وزیر اعظم
کمیٹی کے چیئرمین رانا مقبول احمد نے کابینہ ڈویژن اور سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ آئندہ اجلاس میں اپنی موجودگی کو یقینی بنائیں تاکہ زیر بحث ترمیم پر اپنا نقطہ نظر پیش کر سکیں۔
دوسری جانب سینٹرل سلیکشن بورڈ کے حالیہ فیصلوں پر بحث کے دوران سینیٹر دلاور خان نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے افسران کی برطرفی کی وجوہات بتانے کو کہا۔
وزیر علی محمد خان نے کمیٹی کو بتایا کہ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اس لیے قواعد کے مطابق یہ کمیٹی میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔
تاہم چیئرمین رانا مقبول احمد نے کہا کہ رپورٹ فراہم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'دوہری شہریت والے پر سینیٹ و قومی اسمبلی کے سوا دیگر عہدے رکھنے پر کوئی قانونی قدغن نہیں'
سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے استدلال کیا کہ یہ رپورٹ خفیہ سرکاری معلومات ہے اور وہ اس پر کمیٹی کے ساتھ بات کرنے کی آزادی نہیں رکھتے۔
چیئرمین نے ان سے کہا کہ وہ آئندہ اجلاس میں رپورٹ پیش کریں جو کہ معلومات کی نوعیت خفیہ ہونے کے پیش نظر ان کیمرا منعقد کیا جائے گا۔
اجلاس کے دوران سینیٹر زرقا سہروردی تیمور نے زور دیا کہ کابینہ ڈویژن معطل کیے گئے افسران کا ریکارڈ پیش کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی اولین ترجیح ٹیکس وصولی کو بڑھانا ہے لیکن تعجب ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے افسران اپنی ترقی کے لیے ہائی کورٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔