• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

ایف بی آر کی زیر التوا کیسز پر عدلیہ، وفاقی حکومت کو بریفنگ

شائع February 23, 2022
فواد چوہدری نے کہا کہ قانونی چارہ جوئی اور حکم امتناعی کی وجہ سے ایف بی آر رقم کی وصولی سے قاصر ہے—فائل فوٹو: ایف بی آر ٹوئٹر
فواد چوہدری نے کہا کہ قانونی چارہ جوئی اور حکم امتناعی کی وجہ سے ایف بی آر رقم کی وصولی سے قاصر ہے—فائل فوٹو: ایف بی آر ٹوئٹر

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین اشفاق احمد نے عدلیہ اور وفاقی حکومت کے نمائندوں کو زیر التوا کیسز کے بارے میں بریفنگ دی جس کے سبب ٹیکسز کی مد میں تقریباً 233 ارب روپے کی وصولی میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان زیرالتوا کیسز کی بریفنگ میں خاص طور پر 13 میگا کیسز سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا۔

یہ بریفنگ وفاقی کابینہ کی جانب سے سرکاری خزانے کے اربوں روپے کے واجب الادا معاملات پر تشویش کے اظہار کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے طلب کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر نے ٹیکس آڈٹ کے لیے 12 ہزار 553 کیسز منتخب کرلیے

بریفنگ میں وزیر اطلاعات فواد چوہدری، آئی ایچ سی کے رجسٹرار، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے علاوہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے سربراہان نے شرکت کی۔

قبل ازیں 15 فروری کو کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ایف بی آر ملک بھر میں عدالتوں کے جاری کردہ حکم امتناع اور قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے 3 کھرب روپے کی وصولی نہیں کر سکا۔

انہوں نے کہا کہ حکم امتناع کی وجہ سے ایف بی آر رقم کی وصولی سے قاصر ہے۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر بوگس ٹیکس ریفنڈ کیس میں رقوم کی وصولی کرے، صدر مملکت

ان کا کہنا تھا کہ کابینہ نے اہم قومی معاملات پر وفاقی حکومت اور ہائی کورٹ کے درمیان مشاورت کے لیے ایک فورم قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

اجلاس میں شرکت کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات نے میڈیا کو بتایا کہ زیر التوا کیسز پر شرکا کو بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر نے نشاندہی کی کہ 13 میگا کیسز میں زیر التوا قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے بڑی رقم پھنسی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس کے شرکا نے کیسز کو تیزی سے نمٹانے کے طریقوں اور ذرائع پر تبادلہ خیال کیا، کیونکہ ان معاملات میں بڑی رقم شامل تھی جوکہ بہرحال عوام کا پیسہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر نے مالی سال کے 5 ماہ میں 23 کھرب روپے سے زائد ٹیکس اکٹھا کرلیا

انہوں نے آئی ایچ سی کے سامنے کارروائی میں تاخیر کی وجوہات کی وضاحت نہیں کی، ان کا کہنا تھا کہ اس میں کچھ تکنیکی اور دیگر مسائل شامل ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ کابینہ نے ایک فورم کا مطالبہ کیا تھا جہاں اسٹیک ہولڈرز کیسز کو تیزی سے نمٹانے کے لیے سوچ بچار کر سکتے ہیں۔

انہوں نے آئی ایچ سی کی جانب سے اس حوالے سےمتحرک ہونے کی تعریف کی جو کہ وقت کی ضرورت ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کے اقدام کو سراہتے ہوئے فواد چوہدری نے امید ظاہر کی کہ دیگر ہائی کورٹس بھی اس کی پیروی کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولی میں اضافے کی حکمت عملی پر غور

وزیر اطلاعات، اٹارنی جنرل اور دیگر شرکا کے علاوہ آئی ایچ سی کے رجسٹرار نے وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم کو بھی خط لکھا تھا جس میں انہیں اس میٹنگ میں مدعو کیا گیا تھا تاہم بیرسٹر فروغ نسیم اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

حکومت نے تجویز دی ہے کہ یہ فورم اہم انتظامی معاملات میں غیر ضروری تاخیر کو ختم کرنے میں مدد کرے گا، بڑے زیر التوا کیسز میں ٹیکس کیسز، سرمایہ کاری، انتظامی تقرریوں پر اسٹے آرڈرز اور دیگر اہم کیسز شامل ہیں جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔

اس وقت عدالتوں میں زیر التوا کیسز میں ایف بی آر (3 کھرب روپے) اور ریگولیٹری باڈیز (250 ارب روپے) کی بڑی رقم پھنسی ہوئی ہے۔

وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ اگر حکم امتناع کی مدت مقرر ہو تو یہ ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Legal Feb 23, 2022 12:11pm
The Hon'ble Court may kindly reconsider holding of such briefings - the government is party to a legal proceedings and meeting with judges of a litigant whose matter is pending before the court is a serious matter which should be discouraged. The government should be given opportunity to express its concern in open court during hearing in the presence of other party - Even if such briefing was inevitable then both the parties should be present one would be FBR and other would be tax bars from across the country

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024