’وزیر اعظم کا خطاب سن کر لگا انہیں درست معلومات نہیں دی گئیں‘
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران وزیر اعظم عمران خان کے خطاب کے حوالے سے ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو درست معلومات نہیں دی گئیں۔
پیکا آرڈیننس کے خلاف درخواست لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر نے دائر کی تھی، درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر کی درخواست ہے تو اسے ضرور سنا جائے گا۔
درخواست گزار کی جانب سے ان کے وکیل حسن عرفان خان ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی درخواست میں کچھ نئے نکات اٹھائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے پاس نجی تنازعات میں پڑنے کا اختیار ہی نہیں، اسلام بھی اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔
مزید پڑھیں: پیکا آرڈیننس میں ہتک عزت سے متعلق ترمیم، عدالتی حکم سے متضاد
دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہاں تو قانون نافذ ہی ناقدین کے خلاف کیا جاتا ہے، کل وزیر اعظم کے خطاب سے لگا انہیں کسی نے درست نہیں بتایا، ہتک عزت کا قانون پیکا سے الگ بھی موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے وزیر اعظم کی کسی نے ٹھیک سے معاونت نہیں کی۔
اسلام آبادہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر کی درخواست پر بھی اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔
عدالت عالیہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف صدر لاہور ہائی کورٹ بار کی درخواست پر سماعت 10 مارچ تک ملتوی کردی۔
پیکا آرڈیننس
پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں ترمیم کرتے ہوئے پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب ٹیلی وژن پر کسی بھی 'فرد' کے بارے میں فیک نیوز (جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا
جعلی خبر چلانے پر اب پانچ سال قید کی سزا ہو گی۔
جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔
ٹرائل کورٹ کو مقدمے کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر اندر کرنا ہوگا اور مقدمے کے حوالے سے ٹرائل کورٹ ہر ماہ متعلقہ ہائی کورٹ کو آگاہ کرے گی۔
ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی۔
ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہو گا۔
مذکورہ آرڈیننس کو 'امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022' کا نام دیا گیا ہے جو فوری طور پر نافذالعمل ہوگا۔
مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کا پیکا آرڈیننس، اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ
اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سے 5 سال تک ہے جبکہ اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا)، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سےمنظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔
مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھا، تاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پیکا قانون کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کی حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔
نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے تھے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیاتھا۔