• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

خام تیل کی قیمت 2014 کے بعد پہلی بار 110 ڈالر سے اوپر چلی گئی

شائع March 2, 2022
تیل کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی سے متعلق خدشات کو بڑھا دیا ہے —فوٹو: اے  پی
تیل کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی سے متعلق خدشات کو بڑھا دیا ہے —فوٹو: اے پی

عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 110 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی اور اسٹاک مارکیٹس ڈوب گئی کیونکہ یوکرین کی جنگ کے عالمی توانائی کی سپلائی پر پڑنے والے اثرات اور اقتصادی بحالی سے متعلق سرمایہ کار خوفزدہ ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا اپنے پڑوسی ملک پر حملہ گزشتہ ہفتے کے دوران عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں اضافے کا سبب بنا ہے، مہنگائی اور سینٹرل بینک کی سخت مالیاتی پالیسیوں کی موجودگی میں اس کے تجارتی معاملات مزید اعصاب شکن ہو گئے ہیں۔

اس بحران نے متعدد ممالک کی جانب سے ماسکو کو وسیع پیمانے پر پابندیوں کا شکار بنادیا ہے جس نے روس کو تنہا کردیا ہے اور اس کی معیشت تباہ ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، روس مذاکرات میں یوکرین کے معاملے پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق

ان اقدامات نے دھاتوں اور اناج سمیت اہم اشیا کی سپلائی کے ساتھ مارکیٹوں میں بڑے پیمانے پر بے یقینی پیدا کردی ہے، عالمی سطح پر گندم کی قیمت 14 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور پچھلے مہینے اس میں 30 فیصد اضافہ ہوا۔

تاہم تجارتی امور میں بے چینی کا سب سے بڑا سبب خام تیل ہے، جس کی قیمتوں میں روس کی جانب سے حملہ کرنے کی تیاری شروع کرنے کے بعد سے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

آج خام تیل کی قیمت 2014 کے بعد پہلی بار 110 ڈالر سے اوپر چلی گئی، جبکہ 'ڈبلیو ٹی آئی' اس ہندسے کے قریب پہنچ گیا۔

مزید متوقع پابندیوں نے ان خدشات کو ہوا دی ہے کہ روس سے برآمدات منقطع ہوجائیں گی جو کہ اجناس پیدا کرنے والادنیا کا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا اور روس، یوکرین کے معاملے پر سخت تنازع سے بچنے کے لیے پرعزم

مشرقی یورپ میں تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کورونا وبا کے سبب لاک ڈاؤن کے بعد دوبارہ بحال ہوتی معیشتیں محدود سپلائی اور عالمی مانگ میں اضافے کی وجہ سے پہلے ہی بلند قیمتوں کا سامنا کر رہی ہیں۔

تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم (اوپیک) اور روس سمیت دیگر بڑے فروخت کنندگان کے اجلاس پر تاجر دن کے آخر میں گہری نظر رکھیں گے جہاں وہ قیمتوں میں اضافے کو کم کرنے کے لیے پیداوار میں اضافے پر تبادلہ خیال کریں گے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کہا کہ قیمتوں میں اضافے کو کم کرنے میں مدد کے لیے امریکا 6 کروڑ بیرل جاری کرنے کے 30 ملکی معاہدے میں شامل ہو جائے گا، حالانکہ تجزیہ کاروں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے اقدامات کا صرف محدود اثر پڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: کیف: ٹیلی ویژن ٹاور پر روسی فضائی حملے میں کم از کم 5 افراد ہلاک

تیل کی قیمتوں میں اضافے نے مہنگائی سے متعلق خدشات کو بڑھا دیا ہے کیونکہ یہ امریکا میں 40 سال کی بلند ترین سطح پر ہے، یہ اضافہ امریکیوں کی جیبوں پر ایسے وقت میں بھاری پڑا ہے جب معیشت کورونا وبا کے جھٹکے سے سنبھل رہی ہے۔

تاہم یوکرین کے بحران نے فیڈرل ریزرو کو ایک اور سر درد دیا ہے کیونکہ وہ صارفین کی قیمتوں کو کنٹرول میں لانے کے لیے شرح سود میں اضافے کے اپنے منصوبوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہے۔

رواں مہینے اور پھر سال کے اختتام سے پہلے اس میں 7 گنا اضافے کی بڑے پیمانے پر توقع کی جارہی تھی، لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بحالی کو نقصان پہنچنے کے خوف سے اپنی رفتار کو کم کر دے گا۔

مزید پڑھیں: 40 میل طویل روسی فوجی قافلے کی کیف کو دھمکی، گولہ باری میں شدت

ٹی رو پرائس کے اینڈی میک کارمک نے کہا کہ سپلائی چین کے مسائل اور افراط زر کا دباؤ عالمی سطح پر بہت سے سرمایہ کاروں کے ذہن میں ہوگا۔

سینٹر اسکوائر انویسٹمنٹ مینجمنٹ کی اوما پٹارکائن نے بتایا کہ یہ چیزیں یقینی طور پر پہلے سے ہی مشکل کام کو پیچیدہ بنا دیں گی جس کا سامنا افراط زر سے لڑنے کی کوشش کرتے ہوئے مرکزی بینک کر رہے تھے۔

بلومبرگ ٹیلی ویژن پر جیروم پاول نے کہا کہ مارکیٹ رواں سال شرح میں 7 فیصد کے قریب اضافہ دیکھ رہی تھی، مجھے لگتا ہے کہ یہ 3 یا 4 فیصد کے قریب ہو گا جس کی ہم اس گفتگو کے آغاز میں ہی توقع کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین بحران روس اور یورپ کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟

فیڈرل ریزرو کے سربراہ جیروم پاول کے کانگریس میں 2 روزہ بیان کو بینک کی سوچ سے متعلق واقفیت کے لیے رواں ہفتے باریکی سے دیکھا جائے گا۔

گزشتہ روز وال اسٹریٹ اور یورپی منڈیاں گر گئیں اور بڑے پیمانے پر نقصانات ایشیا تک پہنچ گئے، جہاں پہلے 2 روز مارکیٹ نسبتاً پرسکون رہی تاہم فروخت اتنی زیادہ نہیں تھی۔

ٹوکیو بھی مارکیٹوں نے 1.9 فیصد کمی تک نقصان اٹھایا جبکہ ہانگ کانگ، شنگھائی، سنگاپور، تائی پے، منیلا اور ویلنگٹن میں بھی کمی ہوئی تاہم سڈنی، سیول، جکارتہ اور بنکاک نے معمولی فائدہ اٹھایا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024