مشارتی کمیٹی کی تجویز کی صورت میں حکومت 'پیکا آرڈیننس' واپس لینے پر تیار
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہم نے پیکا ترمیمی آرڈیننس سے متعلق اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کو مکمل مینڈیٹ دیا ہے، جس طرح وہ کہیں گے اس طرح کر لیں گے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
نجی ٹی وی 'ہم نیوز' کے پروگرام 'بریکنگ ود مالک' میں پیکا ترمیمی آرڈیننس سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پیکا ایکٹ سے متعلق فیصلوں کا مینڈیٹ چوہدری پرویز الہیٰ کو دے دیا ہے۔
نجی ٹی وی کے اینکر نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سے پیکا آرڈیننس پر صحافتی تنظیموں کے اعتراضات سے متعلق سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا حکومت ایکٹ پر نظر ثانی کرسکتی ہے، جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی، پرویز الہٰی سے مذاکرت کر کے ایک ٹائم فریم کے اندر اپنی سفارشات کے ساتھ مسودہ تیار کرلے تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے پیکا اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا
فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کو مکمل اختیار دیا ہے، پیکا ترمیمی آرڈیننس سے متعلق جس طرح وہ کہیں گے اس طرح کرلیں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر پیکا سے متعلق میڈیا کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی مشاورت کرکے ایک ٹائم فریم طے کر کے مقررہ وقت میں سفارشات تیار کرکے پرویز الہیٰ سے منظور کرالے تو ہم بھی اسے منظور کرلیں گے اور اس کا اطلاق کردیا جائے گا۔
واضح رہے کہ متنازع پیکا ترمیمی آرڈیننس کو ملک میں اپوزیشن جماعتوں، صحافتی تنظیموں اور وکلا برادری کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
پیکا آرڈیننس
گزشتہ ماہ 20 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کیا تھا۔
مزید پڑھیں: جعلی خبر پر 5 سال سزا ہوگی، کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا، فروغ نسیم
پیکا ترمیمی آرڈیننس میں سیکشن 20 میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے مطابق ’شخص‘ کی تعریف تبدیل کرتے ہوئے ’شخص‘ میں کوئی بھی کمپنی، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے جبکہ ترمیمی آرڈیننس میں کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید 3 سے بڑھا کر 5 سال تک کردی گئی ہے۔
آرڈیننس کے مطابق ٹرائل کورٹ 6 ماہ کے اندر کیس کا فیصلہ کرے گی اور ہر ماہ کیس کی تفصیلات ہائی کورٹ کو جمع کرائے گی۔
پیکا آرڈیننس کے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں پیمرا کے لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو حاصل استثنیٰ ختم کردیا گیا ہے جس کے بعد اب ٹیلی ویژن پر کسی بھی 'فرد' کے بارے میں فیک نیوز (جعلی خبر) یا تضحیک بھی الیکٹرانک کرائم تصور کی جائے گی۔
جعلی خبر نشر کرنے کی صورت میں صرف متاثرہ فرد ہی نہیں بلکہ کسی بھی شخص کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اتھارٹی سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرا سکے اور یہ ناقابل ضمانت جرم ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: صحافتی تنظیموں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیکا آرڈیننس چیلنج کردیا
ٹرائل کے دوران اگر ایسا محسوس ہو کہ مقدمے کو نمٹانے میں رکاوٹیں حائل ہیں تو صوبائی حکومتوں اور افسران کو انہیں دور کرنے کی ہدایت کی جائے گی،ان کیسز کے لیے جج اور افسران کی نامزدگی کا اختیار متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو ہو گا۔
مذکورہ آرڈیننس کو 'امتناع الیکٹرانک کرائم آرڈیننس 2022' کا نام دیا گیا ہے جو فوری طور پر نافذالعمل ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا تھا کہ پیکا آرڈیننس میں سزا 3 سے 5 سال تک ہے جبکہ اس کا شکایت کنندہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ کچھ صحافی ہیں جو جعلی خبروں کے ذریعے معاشرے میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا)، 2016 میں اپوزیشن کی مخالفت کے باجود اس وقت قومی اسمبلی سےمنظور ہوگیا تھا جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاق میں حکومت تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پیکا قانون کو آرڈیننس کے ذریعے ڈریکونین بنا دیا گیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
مسلم لیگ (ن) نے اکثریت کے بل بوتے پر متنازع بل قومی اسمبلی سے منظور کرلیا تھا، تاہم اپوزیشن نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت انتظامی عہدیداروں کو غیر ضروری اختیارات حاصل ہوں گے، جن کا کسی کے خلاف بھی غلط استعمال ہوسکتا ہے اور مزید یہ کہ ملک میں آزادی اظہار رائے متاثر ہوسکتی ہے۔
قانون میں بتایا گیا تھا کہ مزاحیہ یا طنزیہ مواد کی حامل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے خلاف قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے افسران کو کمپیوٹر، موبائل فون یا کوئی بھی ڈیوائس کھولنے کا اختیار دیا گیا، جس کا مقصد جرم یا الزام پر تفتیش تھا اور بدنام کرنا قابل تعزیر جرم ہوگا۔
نومبر 2020 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے پیکا کے تحت سوشل میڈیا کے قوانین مرتب کیے، جس پر ڈیجیٹل رائٹس کے کارکنوں، انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر آف پاکستان اور ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے تنقید کی اور قانون کو وحشیانہ قرار دیا۔