• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ابو زبیدہ کیس: سی آئی اے کے کنٹریکٹرز کی گواہی مسترد

شائع March 4, 2022
ابو زبیدہ کیوبا میں موجود امریکی بحری اڈے پر واقع گوانتاناموبے جیل میں قید ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
ابو زبیدہ کیوبا میں موجود امریکی بحری اڈے پر واقع گوانتاناموبے جیل میں قید ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ سی آئی اے کے دو سابق کنٹریکٹرز سے پولینڈ میں ہونے والی فوجداری تحقیقات کے سلسلے میں ابو زبیدہ سے کی گئی تحقیقات کے دوران ان کے کردار پر پوچھ گچھ نہیں کی جاسکتی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ابو زبیدہ القاعدہ کا ایک مشتبہ اعلیٰ عہدیدار ہے جسے تحقیقات کے دوران متعدد مرتبہ پانی کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے ججوں نے 3-6 کی اکثریت سے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے کنٹریکٹرز جیمز ایلمر مچل اور جان بروس جیسن کو ان امریکی قوانین کے تحت طلب نہیں کیا جا سکتا جو وفاقی عدالتوں کو غیر ملکی قانونی کارروائی کے لیے گواہی یا دیگر شواہد کی درخواست کو نافذ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف پورن اسٹار کا کیس ختم کردیا

عدالت کا اپنے فیصلے میں کہنا تھا کہ حکومت ریاستی راز قرار دے کر کنٹریکٹرز سے پوچھ گچھ کرنے سے روک سکتی ہے کیونکہ اس طرح کی پوچھ کچھ سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ پولینڈ ایک بلیک سائٹ ہے جہاں سی آئی اے نے ابو زبیدہ کے خلاف سخت تفتیشی تکنیک کا استعمال کیا۔

50 سالہ ابو زبیدہ گوانتاناموبے جیل میں 15 سال سے زیادہ عرصہ گزار چکا ہے، امریکی حکومت کی دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ ایک ہی مہینے کے دوران 83 مرتبہ پانی کے ذریعے تشدد کے باعث اس کی ایک آنکھ ضائع ہوچکی ہے۔

جسٹس اسٹیفن بریئر نے فیصلے میں لکھا ہے کہ کنٹریکٹرز کی گواہی خود سی آئی اے کے انکشاف کے مترادف ہوگی۔

مزید پڑھیں: امریکی عدالت کی ٹرمپ کے انتخابی فراڈ کیس کے وکلا کی سرزنش

جسٹس اسٹیفن بریئر نے مزید لکھا کہ ان وجوہات کی بنا پر ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اس معاملے میں ریاستی رازوں کا درجہ پولینڈ میں سی آئی اے کے مرکز کی موجودگی (یا عدم موجودگی) پر لاگو ہوتا ہے۔

ججز اس بات پر تقسیم تھے کہ اصل میں کیا ہونا چاہیے، 6 ججوں کا کہنا تھا کہ ابو زبیدہ کی درخواست کو مسترد کیا جانا چاہیے جبکہ قدامت پسند نیل گورسچ اور لبرل سونیا سوٹومائیر اور ایلینا کاگن کا کہنا تھا کہ کیس کو نچلی عدالتوں میں واپس بھیجا جانا چاہیے۔   نیل گورسچ نے سخت الفاظ میں اختلافی نوٹ لکھا جبکہ سوٹومائیر نے ان کی رائے سے اتفاق کیا، جس میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت جس چیز کو ریاستی راز قرار دینے کا دعویٰ کرتی ہے وہ پہلے ہی بہت مشہور ہے۔

نیل گورسچ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ایک موقع ایسا آتا ہے جہاں ہمیں بطور جج اس بات سے ناواقف نہیں بننا چاہیے جس بات کو ہم بطور شہری سچ جانتے ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکی صدارتی انتخاب: قانونی جنگ کا انجام کیا ہوگا؟

نیل گورسچ نے کہا کہ اس مقدمے کو ختم کرنا حکومت کو شرمندگی کے اقدام سے بچا سکتا ہے، لیکن احترام کے ساتھ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمیں یہ دکھاوا نہیں کرنا چاہیے کہ اس طرح سے ہم کسی راز کی حفاظت کر رہے ہیں۔

پولینڈ کی تحقیقات ابو زبیدہ کے علاج سے متعلق ہیں، ابو زبیدہ کیوبا میں موجود امریکی بحری اڈے پر واقع گوانتاناموبے جیل میں قید ہے۔

ابو زبیدہ نامی فلسطینی شہری کو 2002 میں پاکستان میں پکڑا گیا تھا اور اس وقت سے لے کر اب تک اس کو امریکا نے بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا ہوا ہے جہاں اسے متعدد مرتبہ پانی کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024