یوکرین کے لڑائی بند کرنے تک جنگ ختم نہیں ہوگی، روسی صدر
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ یوکرین میں ان کی مہم منصوبے کے مطابق چل رہی ہے اور یہ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کیف لڑائی بند نہیں کرتا جبکہ شدید بمباری والے شہر ماریوپول کو خالی کرانے کی کوششیں مسلسل دوسرے روز بھی ناکام رہیں۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روسی صدر نے یہ بات ترک ہم منصب رجب طیب اردوان کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران کی۔
ترک صدر نے اس تنازع میں جنگ بندی کی اپیل کی جس سے متعلق اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس جنگ سے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں مہاجرین کا سب سے تیز ترین بحران پیدا ہوا ہے۔
روسی میڈیا نے کہا کہ ولادیمیر پیوٹن نے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے ساتھ بھی تقریباً دو گھنٹے گفتگو کی، جو ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے ہیں، لیکن دیگر عالمی کوششوں کی طرح وہ بھی ابھی تک روس کو 11 روز سے جاری جنگ ختم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکے۔
یہ بھی پڑھیں: روس، یوکرین میں جان بوجھ کر شہری آبادی کو نشانہ بنا رہا ہے، انٹونی بلنکن
ماریوپول میں حکام کا کہنا تھا کہ یوکرین کے ساحلی شہر نے گزشتہ کئی روز سے گولہ باری کا سامنا کیا جس نے لوگوں کو سرد موسم میں ہیٹنگ سسٹم، بجلی اور پانی کے بغیر گھر میں پھنسا رکھا ہے، ان 4 لاکھ رہائشیوں میں سے کچھ کو نکالنے کی دوسری کوشش کریں گے۔
کریملن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ولادیمیر پیوٹن نے رجب طیب اردوان کو بتایا کہ وہ یوکرین اور غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن مذاکرات سے متعلق کی گئی کوئی بھی منفی کوشش ناکام رہے گی۔
ماریوپول سے مکینوں کو نکالنے کی کوششیں مسلسل دوسرے دن بھی ناکام رہیں جبکہ یو این ایچ سی آر کو خدشہ ہے کہ جولائی تک مہاجرین کی تعداد 40 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
ترکی کا بات چیت سے متعلق بیان میں کہنا تھا کہ رجب طیب اردوان نے انسانی بحران کے خدشات کو کم کرنے کے لیے جنگ بندی پر زور دیا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکی قانون ساز کا بھارت سے روس کی مذمت کرنے کا مطالبہ
یوکرین نے روس کی معیشت کو نقصان پہنچانے والی موجودہ کوششوں سے ہٹ کر پابندیوں کو مزید سخت کرنے کے لیے مغرب سے اپنی اپیل کی تجدید کی جبکہ اس نے مزید ہتھیاروں کی فراہمی کی بھی درخواست کی تاکہ اسے روسی افواج کو پسپا کرنے میں مدد ملے۔
'ہمیں تباہ کر رہے ہیں'
ماسکو نے 24 فروری کو شروع کی گئی مہم کو 'خصوصی فوجی آپریشن' قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا یوکرین پر قبضہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، یوکرین جو کبھی ماسکو کے زیر تسلط سوویت یونین کا حصہ تھا لیکن اب اس نے نیٹو اور یورپی یونین کی رکنیت کے لیے مغربی ممالک کی جانب رخ کرلیا ہے۔
ماریوپول کے میئر وادیم بویچینکو نے شہر کی حالت زار کو بیان کرتے ہوئے ایک ویڈیو کال میں 'رائٹرز' کو بتایا کہ 'وہ ہمیں تباہ کر رہے ہیں، مسلسل گولہ باری کے باعث وہ ہمیں زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کی گنتی کا موقع بھی نہیں دے رہے۔'
روس، شہری علاقوں پر حملہ کرنے سے انکار کرتا ہے لیکن اس نے یوکرین میں فوج اور ساز و سامان بھیج دیا ہے، کیف کے شمال میں ایک سڑک پر روس کے ایک بہت بڑے قافلے نے حالیہ دنوں میں محدود دکھائی دینے والی پیش رفت کی ہے جبکہ روس کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری فوٹیج میں کچھ ٹریک شدہ فوجی گاڑیوں کو دکھایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس-یوکرین جنگ کے نتائج پر امریکا نے پاکستان کو خبردار کردیا
یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روسی راکٹوں نے وسطی مغربی علاقے کے دارالحکومت وینیتسیا کے شہری ہوائی اڈے کو تباہ کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس ایک اور جنوبی شہر اوڈیسا پر بمباری کرنے کی تیاری کر رہا ہے، اوڈیسا کے خلاف راکٹ؟ یہ جنگی جرم ہوگا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا کہ تنازع کے دوران یوکرین کے مراکز صحت پر بھی کئی حملے ہوئے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ حملوں میں ہلاکتیں اور زخمی ہوئے لیکن اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
انہوں نے کہا کہ صحت کی دیکھ بھال کے مراکز یا کارکنوں پر حملے طبی غیر جانبداری کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔
پابندیاں مزید سخت
یوکرینی شہری پولینڈ، رومانیہ، سلوواکیہ اور دیگر ممالک میں پھیلتے جارہے ہیں، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں مہاجرین کے سب سے تیزی سے بڑھتے ہوئے بحران میں 15 لاکھ سے زیادہ لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں، ایجنسی نے کہا کہ جولائی تک یہ تعداد 40 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس یوکرین جنگ: ’یہ تنازع اور امن میں انتخاب کا وقت ہے‘
برطانوی ملٹری انٹیلی جنس نے کہا کہ روسی افواج، یوکرین میں آبادی والے علاقوں پر حملہ کر رہی ہیں، ان اقدامات کا موازنہ ان اقدمات سے کرتے ہوئے، جو روس نے 1999 میں چیچنیا اور 2016 میں شام میں کیے تھے، انٹیلی جنس نے کہا کہ یوکرین کی مزاحمت پیش قدمی کو کم کر رہی ہے۔
مغرب، جو پیوٹن کے حملے کی وجوہات کو بے بنیاد قرار دیتا ہے، اس نے پابندیوں کو مزید بڑھا دیا ہے اور یوکرین کو دوبارہ مسلح کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، ان اقدمات کے تحت اسٹنگر میزائل سے لے کر ٹینک شکن ہتھیاروں تک فراہم کیے جا رہے ہیں۔
یوکرین کی فوج کا کہنا ہے کہ حملے کے آغاز سے اب تک 11 ہزار سے زیادہ روسی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور 88 روسی طیارے مار گرائے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر کے مطابق جنگ کے دوران اب تک 350 سے زیادہ شہری مارے جا چکے ہیں۔