• KHI: Zuhr 12:23pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:59am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:23pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:59am Asr 3:22pm

علیم خان ترین گروپ میں شامل، 'تحریک عدم اعتماد آئی تو مل کر فیصلہ کریں گے'

شائع March 7, 2022 اپ ڈیٹ March 8, 2022
علیم خان نے کہا کہ عدم اعتماد آتی ہے تو مل کر فیصلہ کریں گے — فوٹو: ڈان نیوز
علیم خان نے کہا کہ عدم اعتماد آتی ہے تو مل کر فیصلہ کریں گے — فوٹو: ڈان نیوز
ملاقات میں تحریک عدم اعتماد سمیت موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کیا جارہا ہے — فوٹو: عدنان شیخ
ملاقات میں تحریک عدم اعتماد سمیت موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کیا جارہا ہے — فوٹو: عدنان شیخ

حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما علیم خان نے جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی پارٹی کی حکومت پنجاب کی کارکردگی پر گہری تشویش کا اظہار کردیا۔

لاہور میں جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین گروپ کے سینئر رکن سعید اکبر نوانی نے کہا کہ آج جہانگیر ترین گروپ کا اجلاس تھا اور ہم سارے دوست اکٹھے ہوئے اور ہمیں بڑی خوشی ہوئی یہ علیم خان نے آج ہمارے گروپ میں شمولیت کا اعلان کیا اور آئندہ جہانگیر ترین کی قیادت میں جو لائحہ عمل بنے گا اس پر ہم سارے گروپ مل کر عمل کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کا جہانگیر ترین اور علیم خان سے رابطوں کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ آج کی ملاقات مشاورتی ملاقات تھی، دوستوں میں بیٹھ کر بات کرنے کی ملاقات تھی اور اکٹھے رہنے کی ملاقات تھی اور ہم نے یہ دکھانا تھا کہ اگر جہانگیر ترین ملک میں نہ ہوں تو ملاقات انہی کی سربراہی میں ان کے گھر میں ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کے گھر میں ملاقات میں کی کہ کہیں یہ تاثر نہ جائے کہ ہم ترین کے جانے کے بعد آگے پیچھے ہوگئے ہیں، تو ہم اپنے گروپ میں ہیں اور گروپ کے ساتھ ہیں۔

جہانگیر ترین گروپ کے دوسرے رکن نعمان لنگڑیال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علیم خان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ وہ آج جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہوئے ہیں اور جہانگیر ترین پر اعتماد کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ آج یہاں اکٹھے ہونے کا مقصد تھا کہ جہانگیر ترین چند دنوں سے شدید علیل تھے اور طبیعت ناساز تھی تاہم اب وہ صحت مند ہیں اور ہم سب ان کی دلجوئی کے لیے اکٹھے ہوئے اور انہیں بتایا کہ آپ مشکل میں ہیں اور بیماری سے لڑ رہے ہیں، تو اللہ نے شفادی اور ہم سب آپ کے لیے دعاگو ہیں کہ جلد صحت یاب ہو کر 2 سے 4 دنوں میں واپس آئیں گے۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگی جس کا اظہار بلاول بھی کرچکے ہیں، شفقت محمود

ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے یہاں اکٹھے ہوئے کہ ایک تو ان کی خیریت پوچھی جائے اور دوسرا آج جو ماحول ہے، اس پر ہم نے اپنے گروپ کے اتحاد کو ثابت کیا ہے۔

جنہوں نے جہانگیر ترین کاساتھ دیا انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں، علیم خان

اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیم خان نے کہا کہ پچھلے 10 سالہ دور میں تحریک انصاف کی جدوجہد میں بہت سارے ساتھی عمران خان کے ساتھ تھے، ان میں جہانگیر ترین کی بہت بڑی معاونت ہے، اس جدوجہد کو نتیجے تک پہچانے میں، اس کے لیے محنت کرنے میں جتنا جہانگیر ترین نے خود کو فائز کیا تھا میرے خیال میں ہم پی ٹی آئی والے اس جدوجہد کے لیے اور مشکل وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے اور پارٹی کے لیے دن رات محنت کر کرنے کے لیے جہانگیر ترین کے مشکور اور ممنون ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج جہانگیر ترین علیل ہیں تو میں نے خود کہا کہ یہ ملاقات جہانگیر ترین کے گھر میں رکھیں تاکہ ہم ایک ساتھ دوست کو مل کر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر آج آپ یہاں موجود نہیں ہیں تو ہم نے آپ کو بھلایا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست دوستوں میں اضافے کا نام ہے، سیاست مشکل میں دوستوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا نام ہے اور جن دوستوں نے جہانگیر ترین کے مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے، ان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ہماری جدوجہد میں جس جس کا بھی حصہ ہے، خواہ وہ 20 سال سے عمران خان کے ساتھ تھے، 10 سال سے ساتھ تھے یا آخری دو تین سال میں ساتھ تھے، ہم سب لوگوں کے لیے وہ قابل احترام ہیں۔

'حکومت کے بعد جہانگیر ترین سے کام کیوں نہیں لیا گیا'

انہوں نے کہا کہ میں پوری ایمان داری سے کہہ رہا ہوں کہ اگر مجھے ان میں 5 یا 7 چہرے نظر آتے ہیں تو ان میں مجھے جہانگیر ترین نمایاں چہرہ تھا تو نظر آرہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد عمران خان کے لیے تحریک اطمینان ہوگی، شیخ رشید

علیم خان نے کہا کہ حکومت کے بعد جہانگیر ترین سے کام کیوں نہیں لیا گیا، ان کو اہمیت کیوں نہیں دی گئی، اس کا جواب آج تک ٹی آئی کے کارکنوں کو سمجھ میں نہیں آ سکا اور وہ تمام لوگ جنہوں نے عمران خان کے ساتھ ایک نئے پاکستان کی جدوجہد میں ان تھک محنت کی تھی اور ان کے لیے دن رات کام کیا تھا، اس جہدوجہد کو آگے بڑھانے میں خون پسینہ لگایا تھا، ان کو کیوں نظرانداز کیا گیا، اس کا آج تک جواب نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ جب حکومتیں بن جاتی ہیں تو کچھ اور لوگ ہوتے ہیں جو حکومت میں حکمران کے اردگرد آجاتے ہیں جو وفادار لوگ ہوتے ہیں اور جنہوں نے برے وقت میں ساتھ دیا ہوتا ہے وہ پیچھے چلے جاتے ہیں۔

علیم خان نے کہا کہ ہم میں سے کسی کو کبھی افسوس نہ ہوتا کہ اگر ہمیں لگتا کہ ہماری وہ جماعت جس کے لیے ہم نے دن رات محنت کی ہے، اگر آج وہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کر رہی ہوتی، لوگوں کی امیدوں پر پورا اتر رہی ہوتی، عوام میں مقبول ہو رہی ہوتی تو ہمیں کسی کو بھی نظرانداز ہونے کا دکھ نہیں ہوتا۔

'پنجاب کی طرز حکمرانی پر تشویش ہے'

ان کا کہنا تھا کہ آج پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرز کی حکمرانی ہے اور جس طریقے سے حکومت کا کاروبار چل رہا ہے، پی ٹی آئی کے مخلص کارکنوں اور پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والوں کو اس میں تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج آپس میں یہی بات ہوئی ہے کہ ہم سب جو اس تحریک کا حصہ تھے، اس کے لیے مخلص تھے اور قربانیاں دی ہیں وہ سارے ایک پلیٹ فارم میں اکٹھے ہوں، یہ ہم خیال دوستوں کا ایک ایسا گلدستہ ہے اور اس میں وہ تمام لوگ شامل ہوں گے، جو کسی نہ کسی مرحلے میں اس تحریک میں فعال کردار کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کے اراکینِ قومی اسمبلی کو غیر ملکی دورے منسوخ کرنے کی ہدایت

علیم خان نے کہا کہ علیم خان خیریت سے واپس آئیں گے اور جو گلدستہ بنے گا، پچھلے 4 دنوں میں 40 اراکین صوبائی اسمبلی سےمل چکا ہوں اور ان میں سے اکثریت آج کے حالات اور جس طریقے سے خاص طور پر پنجاب کی حکمرانی چل رہی ہے، اس پر تشویش کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری آج بھی یہی کوشش ہے کہ تحریک انصاف میں جتنے گروپس ہیں، ان کو یکجا کریں، ہم سب نے ایک نئے پاکستان کی جدوجہد میں محنت اور کوشش کی ہے اور آج اس جدوجہد کو رائیگاں جاتے دیکھتے ہیں تو دلی افسوس ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان سب سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ تمام دوست جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اور ہماری آخری وقت تک کوشش ہے پی ٹی آئی کو مضبوط اور متحد کریں۔

'پارٹی کسی فرد واحد کی نہیں ہے'

علیم خان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین نے اس پارٹی کے لیے محنت کی ہے، دن رات محنت کی ہے اور ہم سے کوئی نہیں چاہتا کہ ہماری پارٹی، یہ ہم سب کی پارٹی ہے، کسی فرد واحد کی پارٹی نہیں ہے، سب کے لیے ہمارا خون پسینہ لگا ہے اور ہم اس کو متحد کرنے کے لیے اکٹھے ہوں گے۔

صحافی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ لاہور میں وزیراعلیٰ کے خلاف کھڑے ہو کر بات کرنا آسان نہیں تھا اور اس وقت جن لوگوں نے ساتھ دیا تھا وہ بے لوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی میں جتنے گروپس ہیں، ان سے گزارش کرتا ہوں کہ ہمیں اپنی پارٹی کو بچانے کے لیے متحد ہو کر کوشش کرنی ہے۔

صحافیوں کے سوالوں پر انہوں نے کہا کہ میرے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں اس تحریک کا حصہ رہا ہوں، میڈیا کے دوست بھی موجود ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ اس جدوجہد میں دن رات گزارے ہیں اور اس کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی حکمران کے خلاف جب وہ پوری طاقت میں ہو، اس کا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بھی ہو تو اس کے خلاف لاہور شہر میں کھڑا ہونا اتنا آسان نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے وہ وقت گزارا ہے، بڑی جواں مردی اور حوصلے سے گزارا ہے، نہ تو کسی عہدے اور نہ ہی کسی غرض کے لیے گزارا تھا اور ہم نے وہ وقت ایک جذبے کے تحت گزارا تھا۔

پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے کہا کہ اس تحریک میں جو لوگ شامل ہوئے تھے، وہ کسی سیٹ کے لیے یا کسی عہدے کے لیے شامل نہیں ہوئے تھے بلکہ واقعی ایک نئے پاکستان کے لیے شامل ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں اگر مایوسی ہو تی ہے تو اس لیے نہیں ہورہی ہے کیونکہ جو مراعات وزیراعلیٰ کے پاس ہیں شاید میرے پاس اس سے زیادہ موجود ہیں، جو گاڑیاں وہ استعمال کر رہے ہیں شاید میں اس سے بہتر گاڑیاں استعمال کر رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے پاس جو سرکاری جہاز ہے، میرے پاس اس سے بہتر جہاز موجود ہے، مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں ہے کہ مجھے وزیر اعلیٰ بننا تھا تو اس لیے میں نے عمران خان کا ساتھ دیا تھا۔

'میرا جو کردار ہوگا وہ ضرور نبھاؤں گا'

ان کا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان کا اس لیے ساتھ دیا تھا کہ اس پاکستان میں ایک واحد امید تھی، جو عمران خان کی شکل میں عوام نے دیکھی تھی اور ہم نے اس امید کے لیے دن رات محنت کی تھی۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جب ہم سب گروپ اکٹھے ہو رہے ہیں تو میرے دوست بھی اس میں موجود ہیں، گزشتہ 4 دن میں نے ان کے ساتھ ملاقات کی ہے تو ان سب کی مشاورت سے ہی میں فعال ہوا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے فعال ہونے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ہماری پارٹی اور ہم آج جن مسائل کا شکار ہیں اور حکومتوں میں جس طرح کی تبدیلی آرہی ہے، اس میں شاید پی ٹی آئی ہمارے مخلص دوست ہیں، ان کو فعال ہونا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں اسی لیے فعال ہوا ہوں اور میرا جو کردار ہوگا میں وہ ضرور نبھاؤں گا۔

علیم خان کا کہنا تھا کہ اگر عدم اعتماد آتی ہے تو ہم سب مل کر فیصلہ کریں گے کہ ہم نے کس کا ساتھ دینا ہے۔

گورنر سندھ کی علیم خان سے ملاقات

گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے لاہور میں علیم خان سے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر اسلام آباد سے لاہور آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ایک افسوس ہے کہ علیم خان میرےدیرینہ دوست اور بھائی اور میرے ساتھی ہیں، جن کے ساتھ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا کہ وہ میرے ساتھ کراچی میں نہ ہوں یا میں ان کے ساتھ لاہور میں نہ ہوں اور آج مذاکراتی ٹیم کا حصہ بن کر ان کے پاس آنا پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے خوشی ہوئی کہ علیم خان آج بھی وہی عمران خان کا سپاہی اور ساتھی ہے جو وہ آج سے 10 سال پہلے تھا، جتنی محنت اور جتنی جدوجہد علیم خان اور جہانگیر ترین نے اس پارٹی کو اقتدار میں لانے اور عمران خان کے پروگرام میں عمل کے لیے تھی، وہ آج بھی اس پر عمل پیرا ہیں۔

عمران اسمٰعیل نے کہا کہ علیم خان اور جہانگیر خان اور ان کا گروپ کو پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب حکومت سے اپنے تحفظات ہیں اور اس کا اظہار انہوں نے برملا کیا۔

انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے تحفظات ایسے ہیں جو ہماری اپنی حکومت کے مفاد میں ہیں، میں ابھی اپنی ٹیم کے ساتھ واپس اسلام آباد جا رہا ہوں اور ساری سفارشات وزیراعظم عمران خان کے گوش گزار کروں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ وزیراعظم کو کرنا ہے لیکن جو سفارشات اور تحفظات میں یہاں سے لے کر جا رہا ہوں، مجھے یقین ہے کہ وزیراعظم اس سے قبول کریں گے کیونکہ ان کی ساری چیزیں پاکستان تحریک انصاف کے حق میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے، جس کے بارے میں یہ کہ سکوں کہ جس سے پاکستان تحریک انصاف کو کوئی زک یا تکلیف پہنچے گی۔

گورنر سندھ نے کہا کہ حتمی فیصلہ وزیراعظم عمران خان کا ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں، میں اپنی ملاقات میں ساری چیزیں وہاں پیش کروں گا اور پھر دیکھتے ہیں آگے معاملات کس طرح چلتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ کل ہی معاملات طے کرنے کی کوشش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک چیز واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بڑی مضبوطی کے ساتھ مرکز اور پنجاب اور ہر جگہ کھڑی ہے، پی ٹی آئی کے دوست جہانگیر ترین اور علیم خان اور ان کے رفقا اور وہ ناراض لوگ جو علیم خان یا جہانگیر ترین سے رابطہ کر رہے ہیں، وہ سب 24 گھنٹوں میں ایک پیج پر ہوں گے۔

ترین کی رہائش گاہ میں گروپ کا اجلاس

قبل ازیں حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد آنے سے قبل تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ترین گروپ کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ علیم خان کی اہم ملاقات کی، جس میں موجودہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ لاہور میں جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر ہونے والی اس ملاقات میں وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی علیم خان بھی موجود تھے۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ علیم خان کی پچھلے تین دن میں چالیس سے زائد ارکان صوبائی اسمبلی سے ملاقات ہوئی اور وہ ہم خیال گروپ سے ملنے جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ ویڈیو لنک کے ذریعے جہانگیر ترین سے بات کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی میں تمام گروپس بشمول ترین گروپ کو اکٹھا کر کے مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے گا اور جب تک سیاسی منظر نامہ واضح نہیں ہوتا، تمام ارکان کے ناموں کو پوشیدہ رکھا جائے گا۔

ذرائع نے کہا تھا کہ 40 ارکان میں 10 صوبائی وزرا بھی شامل ہیں۔

اس سلسلے میں بتایا گیا تھا کہ جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر پہنچنے والے اراکین اسمبلی میں نعمان لنگڑیال، خرم لغاری، عبدالحئی دستی، لالا طاہر رندھاوا، اجمل چیمہ، عون چوہدری، سلمان نعیم، لالہ طاہر رندھاوا، نعمان لنگڑیال، خرم لغاری، اسلم بھروانہ، سعید نوانی، زوار حیسن، بلال ورڑائچ، افتخار گوندل، امین چوہدری، غلام سنگھا اور قاسم لنگا شامل ہیں۔

ملاقات سے قبل وزیر پنجاب کے سابق مشیر سے صحافیوں نے سوال کیا کہ عون چوہدری صاحب کیا ہونے جارہا ہے؟، اس پر انہوں نے جواب دیا کہ ابھی کچھ بتا نہیں سکتا، تھوڑا سا سسپنس رہنے دیں، جو ہوگا بہتر ہوگا، دعا کریں۔

ایک اور صحافی نے سوال کیا کہ وزیراعلیٰ گھر جا رہے ہیں یا نہیں، تو عون چوہدری نے جواب دیا کہ تھوڑا صبر کریں آگے آگے دیکھیے ہوتاہے کیا۔

اس حوالے سے باوثوق ذرائع نے مزید بتایا کہ مسلم لیگ نواز کی سینئر قیادت نے بھی علیم خان سے رابطہ کیا ہے۔

ترین گروپ کے ارکان تحریک عدم اعتماد کی صورت میں اپنی حکمت عملی کا جائزہ لیں گے اور ترین گروپ پی ٹی آئی کے مزید ناراض ارکان سے رابطوں کا جائزہ لے گا۔

اس کے علاوہ ترین گروپ پنجاب اور مرکز کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کے بارے میں تجاویز کا بھی جائزہ لے گا۔

ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جہانگیر ترین گروپ کے 20 ارکان پنجاب اسمبلی سیاسی صورتحال میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اس حوالے سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ علیم خان گروپ کو 12 سے 15 ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے اور ترین گروپ اور علیم خان کے اتحاد سے پنجاب میں عثمان بزدار اور تحریک انصاف کی حکومت اکثریت سے محروم ہو سکتی ہے۔

اس سے قبل صوبائی وزرا کی بڑی تعداد نے علیم خان سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

ذرائع کے مطابق علیم خان سے ملاقات کرنے والوں میں صوبائی وزیر توانائی ڈاکٹر اختر ملک، صوبائی وزیر ہاشم ڈوگر، صوبائی وزیر وائلڈ لائف اینڈ فشریز صمصام بخاری، صوبائی وزیر خصوصی تعلیم محمد اخلاق شامل ہیں۔

واضح رہے کہ یہ اہم ملاقات ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب اپوزیشن موجودہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاری کررہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2024
کارٹون : 3 دسمبر 2024