وفاقی محتسب، ایف بی آر حکام کےخلاف کارروائی نہیں کرسکتا، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) نے فیصلہ دیا ہے کہ فیڈرل ٹیکس محتسب (ایف ٹی او) کو بدعنوانی کی شکایات پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سینئر حکام کے خلاف کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس بابر ستار نے سنائے گئے اپنے فیصلے ایف بی آر کمشنرز کی جانب سے چیلنج کردہ ایف ٹی او کے نوٹیفکیشن کو بھی مسترد کر دیا۔
14 اپریل 2021 کو جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں بدعنوانی اور غیر قانونی سرگرمیوں کی شکایات پر وفاقی ٹیکس محتسب نے آرڈیننس 2000 کے سیکشن 17 کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایف بی آر لینڈ ریونیو ونگ کے کمشنر کے دفتر کا معائنہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد ہائی کورٹ: ایف آئی اے کو پیکا کی دفعہ 20 کے تحت گرفتاری سے روک دیا گیا
ایف ٹی او کے نوٹیفکیشن کو ایف بی آر کے کمشنرز عبدالوحید خان، ذوالفقار احمد، نعیم حسن اور شبانہ ممتاز نے چیلنج کیا تھا۔
درخواست گزاروں کے وکیل ایڈووکیٹ سید اشفاق حسین نقوی نے عدالت کے روبرو دلائل دیے کہ ایف ٹی او آرڈیننس کے سیکشن 9(1)کے تحتسیکشن 17 کے تحت معائنہ کے اختیارات استعمال کرنے کے لیے کسی متاثرہ شخص کی شکایت ہونی چاہیے جس کے ازالے کے لیے جانچ پڑتال کی ضرورت ہو، اور تحقیقات کی اجازت بھی ایسی شکایت سے متعلق ہے جو شکایات بدانتظامی کے حوالے سے ہوں۔
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ معائنہ کے اختیارات کے استعمال کے لیے بنیاد عام شکایات تھیں جس کے باعث یہ معاملہ ایف ٹی او کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
وکیل ایڈووکیٹ سید اشفاق حسین نقوی کا کہنا تھا کہ بدعنوانی سے متعلق تحقیقات متعلقہ تحقیقاتی ایجنسیوں کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں جبکہ وفاقی ٹیکس محتسب ان ایجنسویں میں شامل نہیں ہے۔
مزید پڑھیں:اسلام آباد ہائیکورٹ: مونال ریسٹورنٹ سیل، سی ڈی اے کو نیوی گالف کلب کا قبضہ لینے کا حکم
اس سے قبل ایف ٹی او نے ایک خط کے ذریعے ایف بی آر کمشنرز کے دفتر کا معائنہ کرنے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی تھی۔
ایف ٹی او نے معائنہ کرنے کے لیے آفس آف ایف ٹی او آرڈیننس 2000 کے اسٹیبلشمنٹ کے سیکشن 17 پر انحصار کیا اور ایف بی آر کو حکم دیا تھا کہ وہ کم از کم گریڈ بی ایس۔20ْ21 گریڈ کے اپنے افسر کو تحقیقات کے لیے نامزد کرے۔
متنازع خط نے ایف ٹی او آرڈیننس کی کچھ دفعات پر انحصار کرتے ہوئے بد انتظامی کا الزام لگایا تھا۔
ایڈوکیٹ اشفاق حسین نقوی نے استدلال کیا کہ انسپکشن ٹیم قانون یا طریقہ کار کے مطابق نہیں بنائی گئی تھی جیسا کہ آرڈیننس اور ایف ٹی او انویسٹی گیشن اینڈ ڈسپوزل آف کمپلینٹس ریگولیشنز 2001 میں تجویز کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کے نئے سیکٹرز میں ججز کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ معطل کردی
درخواست گزار کے وکیل نے مزید کہا کہ اس کی تشکیل کے لیے جاری نوٹی فکیشن میں بدعنوانی کی مبینہ شکایات کی کاپیاں سیکریٹری ریونیو ڈویژن اور ملزم افسر کو فراہم کرنے کی بنیادی ضرورت کو پورا نہیں کیا گیا جیسا کہ آرڈیننس کے سیکشن 10 کے تحت ضابطہ 10(5) میں بتایا گیا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایف ٹی او فرائض کی انجام دہی میں بدعنوان مقاصد کے ساتھ بد انتظامی کی مبینہ شکایات کے سلسلے میں درخواست گزار کے کسی بھی ایسے عمل یا ایسی کوتاہی کی وضاحت کرنے میں ناکام رہا ہے جو ممکنہ طور پر بدعنوان مقاصد کے ساتھ بدانتظامی کے مترادف ہو سکتا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ متنازع خط میں صرف یہ کہا گیا تھا کہ کچھ شکایات درج کرائی گئی ہیں لیکن مبینہ شکایات کی ایک کاپی یا کوئی اور ثبوت فراہم نہیں کیا گیا جس سے یہ ظاہر ہو کہ شکایات واقعی درج بھی کی گئی ہیں۔
درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ ایف ٹی او کے پاس درخواست گزاروں کے دفتر کے معائنے کا حکم دینے کا اختیار نہیں ہے جبکہ اس نے ایف ٹی او آرڈیننس اور ضوابط کے تحت متعلقہ طریقہ کار کی تعمیل نہیں کی۔