• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

عمر سرفراز چیمہ نے گورنر پنجاب کا حلف اٹھا لیا

شائع April 3, 2022
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے حلف لیا — فوٹو: ڈان نیوز
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے حلف لیا — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عمر سرفراز چیمہ نے گورنر پنجاب کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔

گورنر ہاؤس پنجاب میں منعقدہ تقریب میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی نے عمر سرفراز چیمہ سے گورنر پنجاب کا حلف لیا۔

مزید پڑھیں: چوہدری سرور برطرف، عمر سرفراز چیمہ گورنر پنجاب مقرر

اس موقع پر پنجاب کے قائم مقام وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے آج صبح چوہدری محمد سرور کو ان کے عہدے سے برطرف کیا تھا، جس کے چند گھنٹے بعد ہی عمر سرفراز چیمہ کو پنجاب کا نیا گورنر مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر فواد چوہدری نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وفاقی حکومت نے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا ہے، نئے گورنر پنجاب کا اعلان بعد میں کیا جائے گا اور آئین کے مطابق ڈپٹی اسپیکر قائم مقام گورنر ہوں گے۔

بعد ازاں ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے اعلان کیا کہ عمر سرفراز چیمہ کو نیا گورنر پنجاب مقرر کر دیا گیا ہے۔

چوہدری محمد سرور نے گورنر کے عہدے سے برطرف کیے جانے کے بعد لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانے کے فیصلے پر ایک جانب عمران خان تھے اور دوسری جانب پوری تحریک انصاف تھی، میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی عالمی سازش ہے تو سب سے بڑی سازش عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانا تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے ملک بھر میں اور پنجاب میں ہر حلقے میں جاکر تحریک انصاف کے لیے جلسے کیے اور عمران خان کو ملک کا وزیر اعظم بنوایا۔

یہ بھی پڑھیں: عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانا سب سے بڑی عالمی سازش تھی، چوہدری سرور

انہوں نے کہا کہ میں، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، علیم خان وزارت اعلیٰ کے لیے امیدوار تھے، فواد چوہدری بھی وزیر اعلیٰ بن سکتے تھے لیکن عمران خان نے فیصلہ کیا کہ صرف عثمان بزدار ہی نیا پاکستان بنا سکتا ہے، اس فیصلے کے باوجود ہم نے اپنے جذبات پر کنٹرول کیا۔

چوہدری سرور کا کہنا تھا پورے پاکستان نے دیکھا کہ نئے پاکستان میں پنجاب میں کیا تماشے ہوئے اور عثمان بزدار کس طریقے سے نیا پاکستان بناتا رہا، پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود پی ٹی آئی ورکرز اس انتخاب پر آہیں بھر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ہر 3 مہینے بعد آئی جی، چیف سیکریٹری بدلا جاتا رہا اور ملازمتیں بکتی رہیں، ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کے پیسے دے کر اے سی اور ڈی سی لگ رہے ہوں۔

سابق گورنر پنجاب نے کہا کہ اس فیصلے پر ایک جانب عمران خان تھے اور دوسری جانب پوری تحریک انصاف تھی۔

انہوں نے کہا کہ مجھ پر یہ الزام لگایا کہ میں اپوزیشن کے کہنے پر اسمبلی کا اجلاس جان بوجھ کر مؤخر کر رہا تھا، میں آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری وزیرا عظم سے 2 ملاقاتیں ہوئیں، مجھ سے وزیر اعظم نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہر صورت میں 3 اپریل کے بعد ہونا چاہیے لیکن میں نے پرویز الہٰی کو یہ بات نہیں بتائی۔

چوہدری سرور کا کہنا تھا کہ مجھے دکھ ہے کہ پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے، میں نے جب (ن) لیگ سے استعفیٰ دیا تو کبھی ان کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کی، پی پی پی والے بھی میرے کردار کے بارے میں کبھی غلط بات نہیں کرتے، میں نے پچھلے 2 برسوں میں 10 بار استعفیٰ دینے کی کوشش کی، جو کچھ پنجاب میں ہو رہا تھا اسے دیکھ کر میں تکلیف میں تھا، میں لڑ کر نہیں پیار سے جانا چاہتا تھا۔

مزید پڑھیں: چوہدری سرور نے ساڑھے 3 سال گورنرشپ کے مزے لیے، اور کیا چاہیے، پرویز الہٰی

خیال رہے کہ گورنر پنجاب کی تبدیلی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب آج صوبائی اسمبلی میں قائد ایوان یعنی وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہونا تھا۔

پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے 28 مارچ کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تھی اور اسی دن وزیراعلیٰ پنجاب نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر نامزد کردیا گیا تھا۔

بعد ازاں یکم اپریل کو گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا استعفیٰ منظور کرنے کے ساتھ ساتھ 2 اپریل بروز ہفتہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کرلیا تھا، جس کے ایجنڈے میں قائد ایوان کا انتخاب شامل تھا۔

تاہم ہفتے کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس اپوزیشن اور حکومتی اراکین کی ہنگامہ آرائی کے باعث وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بغیر ہی ایک روز کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024