حلقہ بندیوں کے معاملے پر الیکشن کمیشن دباؤ کا شکار
الیکشن کمیشن (ای سی پی) نے کم سے کم وقت میں حلقہ بندیاں کرنے کے آپشنز پر غور کرنا شروع کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ کمیشن نے الیکشن سے متعلق کام جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے کمر کس لی ہے۔
اس سے قبل ایک سینئر عہدیدار نے دعویٰ کیا تھا کہ تین ماہ میں انتخابات کروانے میں قانونی اور دیگر مسائل درپیش ہیں، جس پر الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا نے اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد پیدا ہونے والے آئینی بحران اور سپریم کورٹ کی جانب سے عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ اور اسمبلیاں تحلیل ہونے سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی صورت میں الیکشن کمیشن کی تیاریوں پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔
الیکشنز ایکٹ 2017 کا سیکشن 17 (2) ای سی پی کو اختیار دیتا ہے کہ ہر مردم شماری کے باضابطہ طور پر مطلع ہونے کے بعد حلقوں کی حد بندی کی جائے، موجودہ حد بندیاں 2017 کی مردم شماری کے نتائج کے پیش نظر کی گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: تین ماہ میں عام انتخابات کرانا ممکن نہیں، الیکشن کمیشن
گزشتہ سال مئی میں مردم شماری کے حتمی نتائج شائع ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی حلقہ بندیاں نہیں کی گئیں، اس کی ایک وجہ پی ٹی آئی کی جانب سے 2023 میں مردم شماری کروانے کا امکان بھی ہوسکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اتنی جلدی حلقہ بندی کا عمل مکمل کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ممکنہ حل میں سے ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے حد بندی کی مشق کے لیے ٹائم لائنز میں رد و بدل ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون میں اعتراضات اٹھانے کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے جس کے بعد سماعت کا عمل ہوگا، اگر اعتراضات کو ایک ساتھ سنا جائے تو اس سے وقت کی بچت ہو سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کی وضاحت
دریں اثنا، الیکشن کمیشن نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہا گیا کہ کمیشن تین ماہ میں انتخابات کروانے کے لیے تیار ہے۔
ای سی پی کے ایک عہدیدار کے ریمارکس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، جسے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا پابند بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا مئی 2022 میں سندھ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا اعلان
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو آئینی اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی وقت قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے تجویز دے کر انتخابات کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
ایک بیان میں حیرت کا اظہار کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ای سی پی تیار کیوں نہیں؟ وہ کس لیے تنخواہیں لے رہے ہیں؟ اگر وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتے تو وہ کیوں عہدوں پر فائز رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو غیر یقینی کی صورتحال کا سامنا ہے، ایک طرف ہمیں افغانستان میں عدم استحکام نظر آرہا ہے تو دوسری طرف بھارت غلطی سے میزائل داغنے جیسے اقدامات سے خطے میں امن کو تہہ و بالا کرنے پر تلا ہوا ہے۔
بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلسل غیر یقینی صورتحال ملک کے مفاد میں بہتر نہیں ہے، اس کا واحد حل بروقت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے، ای سی پی کا بروقت انتخابات کے لیے تیار نہ ہونا کمیشن کی ناکامی کا اعتراف ہے اور اس کا سخت نوٹس لیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب سابق وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے ٹوئٹ کیا کہ ' جب ای سی پی کے لیے لازمی ہے کہ وہ تین ماہ میں انتخابات کروانے کے لیے تیار تو ای سی پی یہ کیسے کہہ سکتا ہے، یہ ناپاک ارادہ ظاہر کرتا ہے؟کیا اتفاق ہے کہ یہ بیان روتے ہوئے بچے بلاول کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے کہ 3 ماہ میں الیکشن نہیں ہو سکتے؟
یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، وزیر اعظم سمیت دیگر کو نوٹس جاری
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کے انتخابات میں معدوم ہونے کے بعد الیکشن میں جانے کو تیار نہیں!
سابق وزیر اطلاعات و قانون فواد چوہدری نے بھی ٹوئٹر پر جاری کردہ پیغام اس خبر کو جھوٹا قرار دیا۔
اسی طرح سابق وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ ’ آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 روز میں الیکشن کروانے کا پابند ہے۔
احسن اقبال کا عمران خان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
دریں اثناء مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے عبوری وزیراعظم عمران خان، قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری اور سابق وزیر قانون فواد چوہدری کو آئین توڑنے کے الزام میں گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔
الیکشن کمیشن کے باہرمیڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے عمران خان پر ’سرپرائز‘ کے بہانے آئین کو پامال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے زور دیا کہ انہیں جھوٹ بولنے کی سزا ملنی چاہیے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کرے گی کیونکہ اس معاملے میں نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ عہدہ برقرار رکھنے کے لیے عمران خان نے پاکستان کو ایک اور آئینی بحران میں ڈال دیا اور پاکستانی سفیر سے معمول کی بات چیت کی بنیاد پر ایک اسکینڈل بنایا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ عمران نیازی نے پاکستان کی سفارت کاری کو تباہ کیا اور اس کی بنیاد پر حملہ کیا۔
احسن اقبال نے کہا کہ جب عمران خان کو اپنی شکست کا اندازہ ہوا تو وہ بھاگے، وکٹیں اکھاڑ کر پھینک دیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے اس عمل نے پاکستان کو دنیا کے سامنے شرمندہ کیا۔
تبصرے (1) بند ہیں