زندہ انسانوں کے پھیپھڑوں کی گہرائی میں پہلی بار پلاسٹک ذرات دریافت
مارچ میں سائنسدانوں نے انسانی خون میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو پہلی بار دریافت کیا تھا اور اب مائیکرو پلاسٹک آلودگی پھیپھڑوں کی گہرائی میں پہلی بار دریافت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
درحقیقت محققین نے جن 13 مریضوں کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی، لگ بھگ ان سب میں پلاسٹک کے ننھے ذرات کو پھیپھڑوں کی گہرائی میں دریافت کیا گیا۔
سائنسدانوں نے کہا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات کی آلودگی اب دنیا بھر میں اس حد تک پھیل چکی ہے کہ انسانوں کے لیے اس سے بچنا ممکن نہیں رہا اور صحت کے حوالے سے خدشات بڑٖھ رہے ہیں۔
اس تحقیق کے دوران سرجری کے عمل سے گزرنے والے 13 مریضوں کے پھیپھڑوں کے ٹشوز کی جانچ پڑتال کی گئی اور 11 میں پلاسٹک ذرات کو دریافت کیا گیا۔
سب سے زیادہ عام ذرات پولی پروپلین کے تھے، جسے پلاسٹخ پیکجنگ اور پائپس کی تیاری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے بعد پلاسٹک کی اس قسم کے ذرات سب سے زیادہ تھے جس کا استعمال پانی کی بوتلوں کی تیاری کے لیے کیا جاتا ہے۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ مارچ میں محققین نے انسانی خون میں پہلی بار پلاسٹک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا تھا۔
ان نتائج سے ثابت ہوا تھا کہ یہ ذرات خون کے ذریعے جسم میں سفر کرسکتے ہیں اور اعضا میں اکٹھے ہوسکتے ہیں۔
ان ذرات سے صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں تو ابھی معلوم نہیں مگر لیبارٹری تجربات میں ان ذرات سے انسانی خلیات کو نقصان پہنچنا ثابت ہوچکا ہے۔
اسی طرح فضائی آلودگی کے ذرات کے بارے مٰں پہلے ہی علم ہے کہ وہ جسم میں داخل ہوکر ہر سال لاکھوں اموات کا باعث بنتے ہیں۔
تحقیق میں شامل برطانیہ کے ہول یارک میڈیکل اسکول کی ماہر لورا سڈوسکوفی نے بتایا کہ ہم نے پھیپھڑوں کی گہرائی میں اتنی زیادہ تعداد میں پلاسٹک ذرات دریافت کرنے کی توقع نہیں کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ حیران کن دریافت ہے کیونکہ پھیپھڑوں کے زیریں حصوں میں سانس کی نالیاں چھوٹی ہوتی ہیں اور ہمارا خیال تھا کہ اتنے چھوٹے پلاسٹک ذرات وہاں تک پہنچنے سے پہلے فلٹر ہوجاتے ہوں گے یا وہاں تک پہنچنے سے پہلے کہیں پھنس جاتے ہوں گے۔
اس تحقیق میں صحت مند ٹشوز کو استعمال کیا گیا تھا جس سے سابقہ نتائج کی تصدیق ہوئی مگر یہ پہلی بار ہے جب زندہ انسانوں کے نمونوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔
اس سے قبل لاشوں کے پوسٹ مارٹم کے دوران اس طرح کے نتائج سامنے آئے تھے۔
2021 میں برازیل میں ہونے والی ایسی ایک تحقیق میں 20 میں سے 13 لاشوں کے نمونوں میں پلاسک کے ننھے ذرات کو دریافت کیا گیا۔
1998 میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بھی 100 نمونوں میں پلاسٹک اور کاٹن ذرات کو دریافت کیا گیا تھا۔
اس نئی تحقیق کے نتائج جریدے جرنل سائنس آف دی ٹوٹل انوائرمنٹ میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل اکتوبر 2020 میں آئرلینڈ کے ٹرینیٹی کالج کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ ننھے بچے فیڈنگ بوتلوں کے ذریعے پلاسٹک کے لاکھوں کروڑوں ننھے ذرات نگل لیتے ہیں۔
تحقیق میں زور دیا گیا کہ اس حوالے سے مزید جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے کہ پلاسٹک کے ان ننھے ذرات سے انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایک اور حالیہ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پلاسٹک کے ننھے ذرات خون کے سرخ خلیات کی اوپری جھلی سے منسلک ہوکر ممکنہ طور پر آکسیجن کی فراہمی کی صلاحیت کو محدود کرسکتے ہیں۔
یہ ذرات حاملہ خواتین کے آنول میں بھی دریافت ہوئے۔