پاور فرمز کا بجلی کی قیمت میں 7 روپے 90 پیسے اضافے کا مطالبہ
مئی میں فرنس آئل اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے سبب بجلی کی پیداوار کے اخراجات میں اضافے پر بجلی کی ترسیل کار کمپنیوں نے فی یونٹ 7 روپے 96 پیسے اضافے کا مطالبہ کیا ہے جو صارفین سے جولائی کے بل میں وصول کیا جائے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے توانائی کے شعبے کے ریگولیٹرز سے درخواست کی ہے کہ مئی کے دوران مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کی مجموعی پیداوار پر فی یونٹ 13 روپے 90 پیسے خرچ ہوئے۔
تاہم فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے مقرر کردہ 5 روپے 93 پیسے فی یونٹ کے بینچ مارک سے زیادہ 7 روپے 96 پیسے تک اضافی خرچ ہوئے۔
مزید پڑھیں: بجلی کی قیمت میں 7.91 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری
سی پی پی اے مارکیٹ آپریٹر ہے جو ایک خریدار سے بجلی خرید کر مسابقتی داموں پاور مارکیٹ میں ترسیل کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے اور اس کی ذمہ داریوں میں بجلی کی ڈسٹریبیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے لیے بجلی خریدنا بھی شامل ہے۔
قانونی ضروریات کے پیشِ نظر نیپرا نے معاملے پر 27 جون کو عوامی سطح پر سماعت مقرر کی ہے جس میں تمام تر متعلقہ اداروں اور شہریوں کو مدعو کیا گیا ہے، تاکہ وہ سماعت کے دوران سی پی پی اے کے مطالبات کے خلاف اپنے نظریات پیش کریں۔
تاہم روایتی طور پر ریگولیٹرز کی جانب سے بجلی کی قیمت میں اضافے کے مطالبات منظور کر لیے جاتے ہیں، کیونکہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ ایندھن کی زیادہ قیمت سی پی پی اے کی جانب سے کسی غفلت یا بدانتظامی کی وجہ ہے۔
سی سی پی اے کی جانب سےدائر درخواست میں نشاندہی کی گئی ہے کہ مئی میں فرنس آئل سے بہت مہنگی بجلی پیدا کی گئی جس پر فی یونٹ 33 روپے 67 پیسے خرچ ہوئے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل سے پیدا ہونے والی بجلی کے اخراجات 30 روپے 9 پیسے فی یونٹ رہے۔
یہ بھی پڑھیں: بجلی کی قیمت میں 3 روپے 99 پیسے اضافے کی منظوری
اگرچہ فرنس آئل اور ایچ ایس ڈی سے پیدا ہونے والی بجلی کا کُل پیداوار میں صرف 8.99 فیصد حصہ ہے، لیکن ریگیسیفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس (آر ایل این جی) کی قیمت میں اضافے سے بجلی کی مجموعی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے۔
آر ایل این جی سے پیدا ہونے والی بجلی کے لاگت 27 روپے 92 پیسے فی یونٹ ہے، جبکہ اس کا بجلی کی مجموعی پیداوار میں حصہ 22.89 فیصد ہے۔
اس کے مقابلے میں کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت 18.01 روپے فی یونٹ تھی، لیکن مئی میں پیدا ہونے والی کل بجلی میں اس کا حصہ صرف 13.77 فیصد تھا۔
جوہری پاور پلانٹس رواں ماہ ملک میں بجلی کا سب سے سستا ذریعہ ہے جس کی لاگت 1.05 روپے فی یونٹ تھی اور اس کے ذریعے پیدا ہونے والی بجلی کی کھپت 13 فیصد رہی۔
زیر بحث مہینے میں پاکستان نے ایران سے بہت کم مقدار میں بجلی درآمد کی، جو زیادہ تر بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں فراہم کی گئی اور اس پر 18.95 روپے فی یونٹ اخراجات آئے اور شوگر مل کے پاور پلانٹ سے محدود تعداد میں بجلی حاصل کی گئی جس کی کُل لاگت 5 روپے 98 روپے فی یونٹ تھی۔
مزید پڑھیں: بجلی کے نرخ میں 5 روپے 94 پیسے فی یونٹ اضافے کی منظوری
سی سی پی اے نے نیپرا کو آگاہ کیا کہ مئی کے مہینے میں ڈیموں میں پانی کے بہاؤ کی کمی اور موسمی حالات نہ موافق ہونے کے سبب پانی، ہوا یا سولر سورسز سے بجلی نہیں پیدا گئی۔
دریں اثنا ایک بیان میں آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن (اے پی سی این جی اے) گروپ کے رہنما غیاث عبداللہ پراچہ نے نجی شعبے کو ایل این جی کی درآمدات کی اجازت نہ دینے پر پالیسی سازوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
غیاث عبداللہ پراچہ کا کہنا تھا کہ سی این جی سیکٹر واحد شعبہ ہے جو اپنی ضرورت کے لیے ایل این جی درآمد کر سکتا ہے اور ان کے پاس طویل المدتی معاہدوں کا اختیار بھی موجود ہے، یہ شعبہ کم داموں میں ایل این جی خریدتے ہوئے پاور سیکٹر کو بھی فراہم کرسکتا ہے۔
اے پی سی این جی اے گروپ کے رہنما کا کہنا ہے کہ یہ ملک بھر میں بجلی کا ٹیرف کم کرنے کی وجہ بن سکتے ہیں۔