مونس الہٰی نے منی لانڈرنگ کیس میں مبینہ فرنٹ مین سے تعلق کی تردید کردی
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما مونس الہٰی نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں سوالات کے جوابات میں محمد نواز بھٹی اور مظہر عباس کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کی تردید کردی، جن پر مبینہ طور پر غیرقانونی فنڈ سے رحیم یار خان (آر وائی کے) شوگر مل قائم کرنے کے لیے مدد فراہم کرنے کا الزام ہے۔
ایف آئی اے نے مونس الہٰی اور دیگر 7 افراد پر شوگر اسکینڈل میں منی لانڈرنگ الزامات کے تحت 14 جون کو مقدمہ درج کیا، جس میں محمد نواز بھٹی اور مظہر عباس کے نام بھی شامل ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے پوچھے جانے والے 33 سوالات کے جمع کروائے گئے جوابات میں مونس الہٰی نے کہا کہ وہ نواز بھٹی اور مظہر عباس کو نہیں جانتے یا اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وہ سرکاری ملازم ہیں۔
مزید پڑھیں : منی لانڈرنگ کیس: مونس الہیٰ کی 4 جولائی تک عبوری ضمانت منظور
مونس الہٰی نے ان دونوں افراد سے متعلق دیگر سوالات کے جوابات بھی نفی میں دیے ہیں، جیسا کہ کیا وہ اور ان کی فیملی نے مظہر عباس کو ملازمت کے لیے مدد فراہم کی، یا وہ جانتے ہیں کہ ان دونوں افراد کے رحیم یار خان (آر وائی کے) / الائنس شوگر مل میں حصص ہیں، یا مونس الہٰی نے ان کی کوئی مالی مدد کی تھی، یا وہ یہ جانتے ہیں کہ نواز بھٹی کے 32 اکاؤنٹس ہیں جس کا ٹرن اوور 24 ارب روپے ہے۔
مونس الہیٰ نے اس بات کی بھی تردید کی کہ 'آر وائی کے' شوگر مل کو قائم کرنے کی 'این او سی' لینے کے لیے ان کے والد سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کا اثر و رسوخ استعمال کیا تھا۔
اس سوال کہ 'آر وائی کے' شوگر ملز کے فائدہ اٹھانے والوں کو چھپانے کے لیے 'کارپوریٹ لیئرنگ' کا استعمال کیا گیا کہ جواب مں مونس الہٰی کا کہنا تھا کہ یہ الزام غلط ہے اور غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ ان کے تمام حصص ڈکلئیرڈ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مونس الہٰی نے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کو دباؤ ڈالنے کا حربہ قرار دے دیا
ان کا کہنا تھا کہ 'آر وائی کے' گروپ قائم کرنے میں انہوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
مقدمہ
ایف آئی اے کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق جس کی نقل ڈان ڈاٹ کام پر دستیاب ہے، مونس الہٰی اور دیگر کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات 34 (مشترکہ ارادہ)، دفعہ 109 (اکسانے کی سزا)، دفعہ 420 (دھوکہ دہی اور بےایمانی سے مال حوالے کرنے کی ترغیب دینا)، دفعہ 468 (جعل سازی)، دفعہ 471 (جعلی دستاویز کو حقیقی کاغذات کے طور پر استعمال کرنا) کے ساتھ ساتھ کرپشن کی روک تھام کے ایکٹ 1947 کی دفعہ 5 (2)، اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی دفعہ 4 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق ایف آئی اے کے اینٹی کرپشن سرکل لاہور نے شوگر انکوائری کمیشن 2020 کی رپورٹ کے مطابق 7 اگست 2020 کو انکوائری رجسٹرڈ کی۔
ایف آئی آر نے بتایا گیا کہ رپورٹ کی روشنی میں ایف آئی اے کو وفاقی حکومت کی جانب سے مینڈیٹ دیا گیا کہ وہ مختلف شوگر ملز بشمول 'آر وائی کے' / الائنس شوگر مل کی جانب سے مالیاتی اور کارپوریٹ فراڈ کے خلاف تحقیقات کرے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم سے ملاقات میں مونس الہٰی کی دوبارہ حمایت کی یقین دہانی
ایف آئی آر کے مطابق شوگر مل کو قائم کرنے کا این او سی جون 2007 میں جاری کیا گیا جب پرویز الہٰی وزیراعلیٰ پنجاب تھے لہٰذا اس کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا۔
مزید بتایا گیا کہ 'آر وائی کے' / الائنس شوگر مل گروپ کی جاری تحقیقات میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ 'لو پروفائل افراد' جن میں سے ایک اس وقت بہت ہی 'لو پروفائل' تھا، نے مشترکہ طور پر 2007/2008 میں رحیم یار خان میں 'آر وائی کے' شوگر مل قائم کی تھی۔
ان افراد کی شناخت محمد نواز بھٹی اور مظہر عباس کے نام سے ہوئی ہے۔
ایف آئی آر میں مزید بتایا گیا کہ بظاہر شوگر مل نامعلوم ذرائع سے لانڈرنگ کے فنڈز سے قائم کی گئی ہے جو کہ مالیاتی جرائم میں شامل ہے۔