• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

قومی اسمبلی میں فنانس بل 23-2022 کثرت رائے سے منظور

شائع June 29, 2022
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ حکومت کا فی الحال پیٹرولیم لیوی عائد کرنے کا ارادہ نہیں —فوٹو: ڈان نیوز
وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ حکومت کا فی الحال پیٹرولیم لیوی عائد کرنے کا ارادہ نہیں —فوٹو: ڈان نیوز
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس میں تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی  نئی شرح کی منظوری دی گئی — فوٹو: ڈان نیوز
اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت اجلاس میں تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی نئی شرح کی منظوری دی گئی — فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی نے مالی سال 23-2022 کے فنانس بل کی کثرت رائے سے منظوری دے دی، وفاقی بجٹ کی شق وار منظوری کے دوران پیٹرولیم لیوی میں مرحلہ وار 50 روپے اضافہ بھی منظور کیا گیا ہے۔

اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت 2 گھنٹے سے زائد کی تاخیر کے بعد شروع ہونے والے اجلاس میں وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے زور دے کر کہا کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی درخواست پر کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ 80 فیصد ترامیم کا براہ راست تعلق ٹیکس معاملات سے ہے، ہمارا مقصد امیروں پر ٹیکس لگانا اور غریبوں کو ریلیف دینا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 23-2022 کا بجٹ پیش، دفاعی بجٹ میں اضافہ، ماہانہ ایک لاکھ تک تنخواہ پر ٹیکس ختم

ان کا کہنا تھا کہ ہماری اتحادی حکومت ان معاہدوں پر عملدرآمد کر رہی ہے جن پر پی ٹی آئی کی سابق حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ دستخط کیے تھے۔

حکومت کا فی الحال پیٹرولیم لیوی عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، وزیر خزانہ

وزیر مملکت کی تقریر کے بعد بعد قومی اسمبلی نے فنانس بل کی شق وار منظوری کا آغاز کیا۔

اس عمل کے دوران پارلیمنٹ کے ایوان زیریں نے پیٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے لیوی عائد کرنے کی ترمیم کی منظوری دی۔

اس حوالے سے وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ اس وقت پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی صفر ہے، 50 روپے فی لیٹر لیوی یکمشت عائد نہیں کی جائے گی، پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی لگانے کا اختیار قومی اسمبلی نے حکومت کو دے رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے غیر اہدافی سبسڈی، ایمنسٹی اسکیم پر سوالات اٹھادیے

قومی اسمبلی میں مالیاتی بل 2022 میں ترامیم کے دوران محسن داوڑ کی جانب سے اٹھائے گئے نکتے کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ ترمیم ایوان کی طرف سے حکومت کو 50 روپے فی لیٹر پیٹرولیم لیوی عائد کرنے کی اجازت دیتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ حکومت ایک روپے سے لے کر 50 روپے تک پیٹرولیم لیوی عائد کر سکتی ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ فی الحال حکومت کا پیٹرولیم لیوی عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کی نئی شرح منظور

اجلاس کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو اضافی مراعات دینے کا اختیار متعلقہ قائمہ کمیٹی خزانہ کو دینے کی شق بھی منظور کی گئی۔

مزید پڑھیں: مفتاح اسمٰعیل کا ریئل اسٹیٹ بروکرز، بلڈرز کو ٹیکس دائرہ کار میں لانے کا عزم

حکومت نے تنخواہ دار طبقے کا ریلیف ختم کرتے ہوئے ٹیکس کی نئی شرح کی منظوری دی، نئی منظور کی گئی شرح کے مطابق ماہانہ 50 ہزار روپے تک تنخواہ لینے والوں پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا، ماہانہ 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں پر 2.5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد ہوگا، ماہانہ ایک سے 2 لاکھ تنخواہ والوں پر سالانہ 15 ہزار روپے فکس ٹیکس اور اضافی رقم پر 12.5 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔

ترمیم کے مطابق ماہانہ 2 سے 3 لاکھ تنخواہ والوں پر سالانہ ایک لاکھ 36 ہزار روپے فکس ٹیکس جبکہ 20 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، ماہانہ 3 سے 5 لاکھ روپے تنخواہ لینے والوں پر 4 لاکھ 5 ہزار روپے سالانہ جبکہ 3 لاکھ روپے سے اضافی رقم پر 25 فیصد ماہانہ ٹیکس عائد ہوگا، ماہانہ 5 سے 10 لاکھ روپے تنخواہ لینے والوں پر 10 لاکھ روپے سالانہ اور 5 لاکھ روپے سے اضافی رقم پر 32.5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد ہوگا۔

اس کے علاوہ منظور کی گئی ترمیم کے تحت ماہانہ 10 لاکھ روپے سے زاید کی ماہانہ تنخواہ لینے والوں پر 29 لاکھ روپے سالانہ جبکہ 10 لاکھ روپے سے اضافی رقم پر 35 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔

نئی منظور کی گئی شرح ٹیکس کے مطابق 15 کروڑ سے 30 کروڑ روپے سالانہ آمدن پر ایک سے 4 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ 30 کروڑ روپے سے زائد سالانہ آمدن والے 13 شعبوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تنخواہ دار طبقے کو دیا گیا ریلیف ختم، ٹیکس کی حد 12 لاکھ سے واپس 6 لاکھ روپے مقرر

منظور کی گئی ترمیم کے مطابق ایئر لائنز، آٹوموبائل، مشروبات، سیمنٹ، کیمیکل، سگریٹ، فرٹیلائزر، اسٹیل، ایل این جی ٹرمینل، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد ہوگا، اس کے علاوہ آئل ریفائننگ، فارماسوٹیکل، شوگر اور ٹیکسٹائل بینکنگ سیکٹر پر مالی سال 2023 میں 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔

درآمدی موبائل فونز مزید مہنگے

وفاقی بجٹ کی شق وار منظوری کےدوران درآمدی موبائل فونز مزید مہنگے کردیے گئے ہیں، موبائل فونز کی درآمد پر 100 روپے سے 16 ہزار روپے تک لیوی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق بجٹ میں 30 ڈالر کے موبائل فون پر 100 روپے لیوی عائد کیا گیا ہے، بجٹ میں 30 ڈالر سے 100 ڈالر مالیت کے موبائل فونز پر 200 روپے لیوی کی منظوری دی گئی ہے، دو سو ڈالر کے درآمدی موبائل فون پر 600 روپے لیوی نافذ کی گئی ہے جبکہ 350 ڈالر مالیت کے موبائل فونز پر 1800 روپے لیوی وصول کی جائے گی۔

اس کے علاوہ 5 سو ڈالر کے موبائل فون پر 4 ہزار روپے لیوی اور 7 سو ڈالر تک مالیت کے موبائل فون پر 8 ہزار روپے لیوی وصول کی جائے گی جبکہ 701 ڈالر یا اس سے زائد مالیت کے موبائل فون پر 16 ہزار لیوی عائد کی گئی ہے۔

وفاقی بجٹ کی شق وار منظوری کے دوران سنیما، فلم پروڈکشن اور پوسٹ پروڈکشن کے درآمدی آلات پر ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، اسی طرح پروجیکٹرز، اسکرین، تھری ڈی گلاسز، ڈیجیٹل لاؤڈ اسپیکرز، ایمپلیفائر، میوزک ڈسٹریبیوشن سسٹم اور دیگر اشیا پر بھی ڈیوٹی ختم کرنے کی منظوری دی گئی۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے 10 جون کو مالی سال 23-2022 کے لیے 95 کھرب حجم کا بجٹ پیش کیا تھا۔

مزید پڑھیں: آئی ایم ایف کی 2022 میں پاکستان کی حقیقی شرح نمو 4 فیصد رہنے کی پیش گوئی

قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے ٹیکس دائرہ کار سے باہر چھوٹے دکانداروں پر 3 ہزار روپے اور بڑے دکانداروں پر 10 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس عائد کرنے کا کہا تھا۔

اس کے علاوہ سونے کا کاروبار کرنے والے دکاندار جن کی دکان کا رقبہ 300 مربع فٹ یا کم ہو ان کے لیے ٹیکس 50 ہزار روپے سے کم کر کے 40 ہزار روپے جبکہ بڑے دکانداروں کے لیے سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کر کے 3 فیصد کردیا گیا۔

اس کے علاوہ کسی شخص کے سونار کو سونا فروخت کرنے پر ود ہولڈنگ ٹیکس 4 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کردیا گیا اور ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والوں، بلڈرز اور کار ڈیلرز کے بھی اسی طرح کی اسکیم کا اعلان کیا گیا۔

دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بڑی صنعتوں پر 10 فیصد ’سپر ٹیکس‘ لگانے کا اعلان کیا تھا تاکہ مہنگائی کے سبب غریب طبقے کو بچاتے ہوئے ریونیو اکٹھا کیا جاسکے۔

مزدی پڑھیں: حکومت کو ‘مشکل فیصلے’ کرنے ہوں گے، مفتاح اسمٰعیل کا آئی ایم ایف سے اتفاق

جن 13 صنعتوں پر ٹیکس لگایا جارہا ہے ان میں سیمنٹ، اسٹیل، چینی، تیل اور گیس، کھاد، ایل این جی ٹرمینلز، ٹیکسٹائل، بینکنگ، آٹو موبائل، سگریٹس، مشروبات، کیمیکلز اور ایئرلائنز شامل ہیں۔

عمران خان، مخالفین جانتے ہیں ادارے نیوٹرل رہیں گے تو وہ جیت نہیں سکتے، بلاول بھٹو

— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ و پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اس اہم اجلاس کے دوران ملک کے معاشی حالات، عوامی مشکلات اور بجٹ کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی دوران ابھی یہاں حکومت سندھ کی غیر موجودگی میں سندھ کے بلدیاتی انتخابات پر بات کی گئی، دھاندلی کے الزامات لگائے گئے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ مناسب تو یہ ہوتا کہ سندھ کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق سندھ میں بات کی جاتی مگر کیونکہ میری پارٹی کے خلاف بات کی گئی ہے تو میں اس پر کچھ بات کرنا چاہوں گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت تین نسلوں سے جموریت کے لیے جدوجہد کرتی آرہی ہے، ہم نے ہمیشہ آمریت کے خلاف جدوجہد کی ہے، چاہیے وہ ضیاالحق ہو یا جنرل (ر) پرویز مشرف ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے، آمریت سے ملک کو نجات دلائی ہے، ہمیشہ پیپلز پارٹی کے خلاف دھاندلی کی گئی، ہماری پارٹی کو فتح سے روکنے کے لیے دھاندلی کی جاتی رہی ہے، اس کے باوجود پیپلز پارٹی کامیاب ہوتی رہی ہے۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہمارے مخالفین صاف، شفاف انتخابات میں ہم سے جیت نہیں سکتے، جیسے عمران خان کو شکایت ہے کہ ہمارے ادارے نیوٹرل کیوں اور کیسے ہوگئے، اداروں کو نیوٹرل نہیں ہونا چاہیے، عمران خان جانتے ہیں کہ اگر ادارے نیوٹرل رہیں گے تو ان کی جماعت اور ان کے جیسی دیگر جماعتیں الیکشن میں جیت نہیں سکتیں، اس لیے وہ آج تحریک چلا رہے ہیں کہ ہمارے ادارے نیوٹرل نہ رہیں بلکہ متنازع کردار ادا کریں اور ان کی جماعت کی ٹائیگر فورس بن کر کام کریں۔

یہ بھی پڑھیں: چین سے 2.3 ارب ڈالر قرض کی رقم موصول ہوگئی، مفتاح اسمٰعیل

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی طرح سندھ میں بھی کچھ ایسی جماعتیں، ایسے سیاستدان اور کچھ ایسی کٹھ پتلیاں ہیں کہ جب بھی آمرانہ دور آتا ہے تو ان کو کھڑا کیا جاتا ہے اور ایسی جماعتوں اور افراد کی امید اور ان کی سیاست اس بات پر کھڑی تھی کہ ہمارے ادارے نیوٹرل نہیں رہیں گے لیکن جب ہمارے ادارے، جیسے الیکشن کمیشن، ہماری عدالتیں اور وہ ادارے جو الیکشن میں دلچسپی لیتے ہیں اور انہوں نے اس مرتبہ دلچسپی نہیں لی اور وہ غیر جانبدار اور غیر سیاسی رہے تو ایسے لوگ پریشان ہوگئے کہ اگر صاف، شفاف الیکشن ہوں گے تو ان کی ضمانتیں ضبط ہوجائیں گی اور ایسا ہی ہوا۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آج ہم پر دھاندلی کے الزامات لگانے والے الیکشن سے ایک روز قبل تک سندھ ہائی کورٹ میں جمع تھے کی کسی طرح سے الیکشن سے فرار ہوا جائے، مخالفین جانتے ہیں کہ اگر وہ آج ایوان میں موجود ہیں تو اس کی وجہ بھی صرف یہ ہے کہ 2018 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی، مخالفین کا رونا دھونا ابھی سے شروع ہوگیا ہے، انہیں ابھی مزید رونا ہے، بلدیاتی الیکشن کے اگلے مرحلے میں بھی مخالفین کی ضمانتیں ضبط ہوں گی، اگر انتخابی اصلاحات ہوجاتی ہیں تو پیپلز پارٹی کی کارکردگی انتخابات میں اچھی ہوگی۔

ایم کیو ایم پاکستان، جی ڈی اے رہنماؤں کا احتجاج

قومی اسمبلی اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی نے ایوان میں احتجاج کیا، رکن قومی اسمبلی صابر قائمخانی کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقوں کے منصوبوں کو کوئی ترجیح نہیں دی گئی، حکومتی بینچوں سے دوسری جانب جانے میں ہمیں وقت نہیں لگے گا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم کا بڑی صنعتوں پر 10 فیصد ’سپر ٹیکس‘ لگانے کا اعلان

اس دوران ایم کیو ایم کے ارکان صلاح الدین اور صابر قائمخانی نے ایوان سے واک آؤٹ کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ بات نہیں ماننی تو ہم ایسی وزارتوں پر تھو بھی نہیں کرتے۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے احتجاج پر وفاقی وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی نے ایم کیو ایم ارکان سے مذاکرات کیے، اس دوران ایم کیو ایم رہنما صلاح الدین نے کہا کہ ہماری جماعت نے اس حکومت کے لیے بھاری سیاسی قیمت ادا کی ہے جبکہ حکومت میں ایک شخص ہے جو ہمارے منصوبوں کو بجٹ میں شامل نہیں ہونے دے رہا۔

قومی اسمبلی اجلاس کے دوران گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے رہنما غوث بخش مہر نے ایوان سے واک آؤٹ کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم کیوں پیسے ضائع کر رہے ہیں، سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی کیا ضرورت تھی، وہاں جس طرح کے بلدیاتی انتخابات کروائے گئے سب نے دیکھا، سندھ کے بلدیاتی انتخابات پر ایوان سے واک آؤٹ کرتا ہوں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024