کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کس کا پلڑا بھاری؟
مسلسل 3 بار منسوخی کے بعد بالآخر 15 جنوری 2023ء کو عروس البلاد کراچی میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ ملک کے سیاسی حالات اور کراچی شہر کی ابتر صورتحال کی وجہ سے یہ انتخابات بہت اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔
کراچی میں گزشتہ بلدیاتی انتخابات 2016ء میں منعقد ہوئے تھے جس کے بعد شہر میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی بلدیاتی حکومت بنی اور شہر کے میئر کے لیے وسیم اختر کا انتخاب ہوا۔ لیکن اس پورے عرصے میں وسیم اختر یہ کہتے رہ گئے کہ ہمارے پاس اختیارات نہیں ہیں اور جب انہوں نے بطور میئر اپنی آخری پریس کانفرنس کی تو اس میں بھی وہ اختیارات سے متعلق ہی بات کرتے دکھائی دیے۔
اب تقریباً 6 سال کے وقفے کے بعد بننے والی اس منتخب بلدیاتی حکومت سے شہریوں کو بہت امیدیں وابستہ ہیں اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ گزشتہ انتخابات سے لے کر اب تک شہر کا انفرااسٹرکچر مزید خرابی کا شکار ہوا ہے۔
اگست 2020ء میں ہونے والی تباہ کن مون سون بارشوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اربن فلڈنگ کی صورتحال نے شہر کے نظامِ زندگی کو درہم برہم کردیا تھا اور شہریوں کو شدید جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس وقت کے وزیرِاعظم عمران خان نے کراچی کا دورہ کیا اور 11 سو ارب روپے کے کراچی پیکج کا اعلان کیا جس پر عمل درآمد کے لیے ایک کمیٹی بھی وجود میں آئی۔ تاہم وزیرِاعظم کے واپس اسلام آباد جاتے ہی اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور اعلان کردہ 11 سو ارب میں وفاق اور صوبے کے حصہ کے حوالے سے بحث شروع ہوگئی جو کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچی۔
کراچی میں گزشتہ ڈھائی برسوں سے کوئی منتخب بلدیاتی حکومت موجود نہیں ہے۔ گزشتہ سال ہونے والی مون سون بارشوں کے بعد کراچی ماضی کی طرح ایک بار پھر ڈوب گیا۔ اگر شہر کی سماجی فضا کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ شہری کراچی کی اس ابتر حالت سے تنگ آچکے ہیں اور اب کسی حقیقی بہتری کی تمنا رکھتے ہیں۔ ان حالات میں کراچی کی تمام ہی سیاسی جماعتیں شہریوں کی ہمدردیاں اور ووٹ حاصل کرنے کی جان توڑ کوششیں کررہی ہیں۔
ہم نے کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سینیئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں سے رابطہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کے نزدیک کراچی کے ان بلدیاتی انتخابات کی کیا اہمیت ہے، شہر کی سیاسی فضا کو دیکھتے ہوئے کن سیاسی جماعتوں کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے اور ان کے نزدیک کس جماعت کا پلڑا بھاری ہے۔ ہم نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی بلدیاتی حکومت کیا واقعی شہر کے مسائل حل کرسکے گی؟
اس حوالے سے سینیئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی کیا رائے تھی آئیے جانتے ہیں۔
نادیہ مرزا
جہاں تک کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا تعلق ہے تو میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان انتخابات کو سیاسی نظریات سے ہٹ کر دیکھنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی اپنی کچھ حدود ہوتی ہیں اور وہ اپنی جماعتی پالیسی یا نظریات سے نکل کر کچھ نہیں کرسکتیں۔
کراچی کے بلدیاتی کے انتخابات کے حوالے سے جماعت اسلامی کے ذکر کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں نے کراچی میں نعمت اللہ خان صاحب کا دور دیکھا ہے، ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم نے مصطفیٰ کمال کا دور بھی دیکھا لیکن جماعت اسلامی کا ذکر یہاں اس لیے اہم ہے کہ ان کے ساتھ مذہب اور شدت پسندی کا ایک لیبل لگایا جاتا ہے لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے دور میں شہر میں کام کیا۔
اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سمجھیے کہ بلدیاتی انتخابات میں پارٹی کا نظریہ شاید اتنی اہمیت نہیں رکھتا۔ بلدیات حکومتی نظام کی تیسری سطح ہے جس میں آپ نے کام کرنا ہے اور ڈیلیور کرنا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں اختیارات کی منتقلی کے بعد بھی ہم نے کبھی بلدیاتی حکومتوں کو مضبوط کیا ہی نہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت کی یہ تیسری سطح مضبوط ہو اور غیر سیاسی ہو۔ جب تک یہ حکومت، چاہے وہ کسی بھی جماعت کی ہو غیر سیاسی بنیاد پر کام نہیں کرے گی تب تک کراچی کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک سیاسی حکومت کی ترجیحات ان کے سیاسی مفادات ہوتے ہیں اسی وجہ سے شاید آج تک کراچی کے دیرینہ مسائل حل نہیں ہوسکے۔
ان وجوہات کی بنا پر میرا ماننا ہے کہ شہر کی حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو کام کریں، ڈیلیور کریں، شہر کے مسائل پر آواز اٹھائیں اور ان مسائل کو حل کردیں۔
ظاہر ہے کہ کراچی شہر کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں، ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ہے جو ان مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اگر ہم ماضی قریب پر نظر ڈالیں تو اس شہر سے جماعت اسلامی کو کبھی ووٹ نہیں ملا۔ ہاں جماعت نعمت اللہ خان کا ضرور ذکر کرتی ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے نتیجے میں وہ ووٹ جماعت اسلامی کو ملا۔ اس سے قبل ایم کیو ایم بننے سے پہلے عبدالستار افغانی کا دور ہوا کرتا تھا جب جماعت اسلامی کو اس شہر سے ووٹ ملتا تھا۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کو ووٹ نہ ملنے کی کئی وجوہات ہیں جن میں سے کچھ کا اوپر ذکر ہوچکا ہے۔
لیکن میں آج جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن میں یہ صلاحیت دیکھتی ہوں کہ انہوں نے سیاست کو ایک جانب کرکے ہر مسئلے پر بات کی ہے، انہوں نے کے الیکٹرک پر بھی بات کی کہ جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بھی عارف نقوی کی وجہ سے خاموشی اختیار کرلیتی ہے، اسی طرح ایم کیو ایم بھی کئی مسئلوں پر اگر مگر کا شکار ہوجاتی ہے اور پیپلز پارٹی تو کسی کھاتے میں ہے ہی نہیں۔
میں نے ذاتی طور پر یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اگرچہ کراچی جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دیتا لیکن اس کے باوجود بھی حافظ نعیم الرحمٰن نے شہر کے تمام ہی مسائل پر آواز اٹھائی ہے۔ دیکھیے پیپلز پارٹی کراچی میں کیوں کام نہیں کرتی کہ وہ کہتی ہے کراچی انہیں ووٹ نہیں دیتا۔ اس کے برعکس اگر جماعت اسلامی یا حافظ نعیم الرحمٰن کو دیکھا جائے تو کراچی انہیں بھی ووٹ نہیں دیتا لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے ہر مسئلے پر آواز اٹھائی، احتجاج کیا اور دھرنے بھی دیے۔ اگر ہم ماضی میں نعمت اللہ خان صاحب کے دور اور اب حافظ نعیم الرحمٰن کی صلاحیتوں کو دیکھیں تو میرے خیال سے انہیں ایک موقع دینا چاہیے کیونکہ وہ خود بھی کراچی میں رہتے ہیں، پڑھے لکھے فرد ہیں اور کراچی کو سمجھتے ہیں تو وہ بہتر طریقے سے ڈیلیور کرسکیں۔
مجاہد بریلوی
سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت کام کرسکے گی تو دیکھیے 18ویں ترمیم کے بعد صورتحال تھوڑی پیچیدہ ہوگئی ہے۔ یہ ترمیم جس دور میں آئی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ وفاق سے وسائل صوبوں کو دیے جائیں گے اس وقت مرکز میں بھی اور صوبے میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ کل کو اگر مرکز میں ان کی مخالف حکومت آگئی تو وہ کیوں صوبے میں ان کی مدد کرے گی۔
اسی طرح صوبوں کو چاہیے تھا کہ وفاق سے ملنے والے وسائل بلدیاتی حکومتوں کے حوالے کریں، اوّل تو یہاں بلدیاتی حکومت کی جگہ ایڈمنسٹریٹر ہیں اور جہاں جہاں ان کی اپنی جماعت کے ایڈمنسٹریٹر ہیں وہاں تو پیپلز پارٹی نے فنڈنگ کردی اور جہاں مخالفین تھے وہاں کچھ نہ دیا اس وجہ سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کے علاوہ کسی کی بلدیاتی حکومت آئی تو اس کو کیسے فنڈنگ ہوگی۔
اس صورتحال میں اگر ہم کراچی کی سیاست کے دیگر کرداروں پر نظر ڈالیں تو شہر میں ان میں سے کوئی بھی جماعت بلدیاتی حکومت بنالے لیکن اگر وہ صوبائی یا وفاقی حکومت کا ساتھ نہیں دے گی تو اس کو وسائل کی فراہمی مشکل ہوجائے گی اور وسائل نہیں ہوں گے تو کام کیسے ہوں گے؟
مبشر زیدی
دیکھیے ہر کوئی اب اس بات کو سمجھ رہا ہے اور تسلیم کررہا ہے کہ کراچی میں ایک بہت بڑا سیاسی خلا موجود ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے والی ایسی کوئی جماعت نظر نہیں آرہی جو شہر کا واضح مینڈیٹ لے کر اس شہر کی مشکلات یا اس پر ڈھائے جانے والے ستم کو ختم کرسکے۔
اگر ایم کیو ایم کی بات کی جائے تو شہر میں اس کا اثر و رسوخ ختم ہوتا جارہا ہے، اب مصطفی کمال اور فاروق ستار کے مل جانے کے بعد کیا صورتحال ہوتی ہے، اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کی بھی شہر پر توجہ نہیں ہے۔ اگر پی ٹی آئی چاہے تو کراچی میں ایک سرپرائز دے سکتی ہے کیونکہ یہاں ایک بہت بڑی پشتون آبادی موجود ہے جسے اب تک نہ ہی اے این پی، نہ ہی ایم کیو ایم اور نہ ہی پیپلز پارٹی قائل کرسکی ہے۔ اگر پی ٹی آئی اس آبادی کی ہمدردیاں حاصل کرلے اور کسی طریقے سے اس کو متحرک کرلے تو شاید وہ میدان مار سکتی ہے۔ لیکن ان کے ایم این ایز کا تجربہ اتنا بُرا رہا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ کراچی کے لوگ ان پر اعتماد کریں گے یا نہیں۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی ہے جو صوبے پر حکومت تو کرتی ہے مگر کراچی میں اس کا کوئی بہت بڑا ووٹ بینک نہیں اور نہ اس کی کراچی پر اس طرح سے توجہ ہے۔ ہم نے دیکھا کہ شہر میں جتنے بڑے منصوبے ہیں وہ وفاق کے شروع کیے ہوئے ہیں۔
اس شہر کو ایک مضبوط مقامی حکومت چاہیے۔ اگر پی ٹی آئی اپنے لوگوں کو متحرک کرے تو شاید وہ یہ حاصل کرسکتی ہے لیکن یہ اگر بہت بڑا ہے، اس کے علاوہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی جماعت اس وقت یہ اہلیت رکھتی ہے۔
جماعت اسلامی کا اگرچہ ماضی میں میئر رہا ہے لیکن ایم کیو ایم کی طرح ان کی حمایت بھی گھٹ رہی ہے اور میرے نزدیک اس مرتبہ اصل مقابلہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوگا۔ پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی لہر کو دیکھتے ہوئے امکان یہ ہے کہ شاید وہ کراچی کے انتخابات میں کوئی سرپرائز دکھا دے لیکن میں یہاں بھی ’شاید‘ کا استعمال کروں گا۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کی بات ہے تو ان کے زیرِ اثر 2 ہی علاقے یعنی لیاری اور ملیر ہیں اس کے علاوہ دیگر علاقوں خاص طور سے شہر کے وسطی علاقوں میں اس کا اتنا اثر و رسوخ نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہمیں فی الحال ایک کھچڑی نظر آرہی ہے لیکن میں پھر اس بات کو دہراؤں گا کہ کراچی میں جب تک ایک مضبوط مینڈیٹ والی جماعت کو کامیابی نہیں ملے گی تب تک شہر کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
علا الدین خانزادہ
دیکھیے انتخابات جب بھی ہوں، جہاں بھی ہوں اور جس سطح پر بھی وہ ہمیشہ ہی اہم ہوتے ہیں کیونکہ اس طرح لوگوں کو اپنی رائے اور ووٹ کی طاقت کا پتا چلتا ہے اور لوگ اپنے ووٹ کی طاقت سے اپنے اوپر انتظامی افراد کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی بات 15 جنوری کو کراچی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر بھی صادق آتی ہے۔
ان انتخابات میں ظاہر ہے کہ سیاسی پس منظر رکھنے والے افراد بھی امیدوار ہوں گے اور کچھ لوگ ہوں گے جو آزاد حیثیت میں بھی انتخاب لڑیں گے۔ یہ تمام امیدوار اپنی اپنی خدمات کا حوالہ دے کر لوگوں کو انہیں ووٹ دینے کے لیے قائل کریں گے۔ اب آج تک کی صورتحال دیکھ کر لگتا ہے کہ کچھ لوگ تو صرف ان بلدیاتی انتخابات کے لیے میدان میں اترے ہیں اور شاید ان بلدیاتی انتخابات کے بعد ان کا کوئی پتا نہ رہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے خاص سیاسی ایجنڈے کے مطابق انتخابات جیتنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنی سیاسی خدمات کو گنوا رہے ہیں اور کچھ لوگ اپنی مذہبی خدمات کو گنوا رہے ہیں۔
ان حالات میں اگر کسی بھی رعایت اور سہولت کے بغیر شہر کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو ایک جماعت ایسی ہے جو ہار اور جیت سے بالاتر ہوکر موسم کی سختیوں اور کورونا وبا کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے میدان عمل میں دکھائی دیتی رہی اور وہ ہے جماعت اسلامی۔
اہم بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا سیاست کے ساتھ ساتھ مذہبی پس منظر بھی ہے لیکن کراچی کی سطح تک بات کریں تو اپنے ان دونوں پس منظر کے باوجود یہ جماعت ہمیں کراچی شہر اور اس کے عام آدمی کا مقدمہ لڑتی ہوئی نظر آتی ہے، پھر چاہے وہ کے الیکٹرک کا معاملہ ہو یا بحریہ ٹاؤن کا یا پھر شہر کے انفرااسٹرکچر کا۔ یعنی اگر شہر کے حق کے لیے کوئی مسلسل اور بدستور آواز رہی ہے تو وہ جماعت اسلامی کی آواز ہے۔
ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان بلدیاتی انتخابات میں شہر کی دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں جماعت اسلامی کا پلڑا بھاری ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جماعت کے پاس شہر کے 2 میئر یعنی نعمت اللہ خان اور عبدالستار افغانی کی صورت میں 2 کامیاب مثالیں موجود ہیں۔
اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور شہر کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کراچی کے لوگوں نے ان ساری باتوں کو سامنے رکھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کا ووٹ جماعت اسلامی کو جائے گا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو کتنے وسائل اور اختیارات ملیں گے اور کیا وہ کم وسائل میں کوئی کام کرسکیں گے تو میرے خیال سے وسائل کا رونا ایک عذر لنگ ہے۔ کراچی میں ہم نے دیکھا کہ نعمت اللہ خان کراچی کے ناظم بنے تو وسائل بہت کم تھے جبکہ مسائل بہت زیادہ تھے اور اسی نوعیت کے تھے جیسے آج ہیں۔ اس کے باوجود اس وقت اس 70 سال کے بوڑھے نے 27 سالہ نوجوان جیسا کام کرکے دکھایا۔ یہ ایک سبب ضرور ہوسکتا ہے کہ اگر صوبائی حکومت نے وسائل نہ دیے تو کام کم ہوگا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر دیانت داری کے ساتھ کام کیا جائے تو کراچی کے اپنے وسائل ہی اس شہر کے بہت سے مسائل حل کرنے کے لیے کافی ہیں۔
عمید فاروقی ڈان کے سابق اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔