• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

رانا ثنا اللہ کیخلاف توہین عدالت کیس: جو الزام لگایا ہے اس کو ثابت کریں، سپریم کورٹ

شائع July 21, 2022
عدالت نے رانا ثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی— فائل فوٹو : اے پی پی
عدالت نے رانا ثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی— فائل فوٹو : اے پی پی

سپریم کورٹ نے وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی درخواست پر سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کرتے ہوئے مزید شواہد عدالتی ریکارڈ پر لانے کا حکم دے دیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے دوران سماعت ریمارکس دئیے کہ جو الزام لگایا گیا ہے اس کو ثابت بھی کریں، اگر ریاستی مشینری بندے اٹھائے تو فوجداری جرم ہوگا اور توہین بھی اسی وقت ہوگی، کسی جرم کو ہونے سے پہلے فرض نہیں کرسکتے۔

سپریم کورٹ میں رانا ثنا اللہ کے دائر کردہ توہین عدالت کی درخواست پر سماعت جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل فیصل چوہدری نے رانا ثنا اللہ کے بیان کے ٹرانسکرپٹ پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رانا ثنا اللہ نے ہمارے بندے اِدھر اُدھر کرنے کا بیان دیا، ہمارے رکن اسمبلی مسعود مجید کو 40 کروڑ میں خرید کر ترکی اسمگل کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والی راحیلہ نامی خاتون نے ہمارے 3 ارکان اسمبلی سے رابطہ کیا، عطا تارڑ نے بھی ہمارے 3 ارکان اسمبلی کو 25 کروڑ کی پیشکش کی۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز الہٰی کی مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کی درخواست

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ آپ کے رکن اسمبلی کے ساتھ راحیلہ کی بات کس تاریخ کو ہوئی؟ اصل بیان حلفی کہاں ہے؟ اس پر فیصل چوہدری نے جواب دیا کہ اصل بیان حلفی لاہور میں ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آئی ایم سوری، اس کا مطلب ہے آپ کو بھی علم نہیں، تینوں بیان حلفی پر عبارت ایک جیسی ہے'۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمارے یکم جولائی کے حکم کی کیا خلاف ورزی ہوئی، عطا تارڑ اور راحیلہ کے خلاف آپ کی توہین عدالت کی درخواست نہیں۔

فیصل چوہدری نے عدالت سے راحیلہ اور عطا تارڑ کے خلاف از خود نوٹس لینے کی استدعا کی تو جسٹس منیب اختر نے کہا از خود نوٹس لینا چیف جسٹس کا اختیار ہے۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کی درخواست: سپریم کورٹ نے لیگی رہنماؤں کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ طلب کرلیا

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اگرریاستی مشینری کی جانب سے بندے اٹھائے جائیں تو یہ فوجداری جرم ہوگا اور توہین بھی اس وقت ہی ہوگی، کسی جرم کو ہونے سے پہلے فرض نہیں کرسکتے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے پرویز الٰہی کے وکیل کو توہین عدالت سے متعلق مزید شواہد ریکارڈ پر لانے کی ہدایت کردی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ توہین عدالت کا جو الزام لگایا ہے اس کو ثابت کریں تاکہ پتا چلے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہاں پر بیٹھے ہیں اور ہماری آنکھیں بند نہیں، ہماری نظر اپنے حکم نامے اور قانون پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں پی ٹی آئی قیادت کے خلاف کارروائی کیلئے کمیٹی تشکیل

فیصل چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ارکان اسمبلی کی کامیابی کا نوٹی فکیشن نہیں جاری کیا، الیکشن کمیشن سے ہمارے حالات کشیدہ ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے رہمارکس دیے کہ آپ کے حالات الیکشن کمیشن سے کشیدہ ہوں گے مگر ہمارے ساتھ تو نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے رانا ثنا اللہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

توہین عدالت کی درخواست کا پس منظر

واضح رہے کہ 2 روز قبل اسپیکر پنجاب اسمبلی اور تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ پنجاب کے حمایت یافتہ امیدوار پرویز الہٰی نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: وزیر اعلی پنجاب کا انتخاب شفاف طریقے سے کرانے کیلئے پی ٹی آئی کا عدالت سے رجوع

سینئر وکیل فیصل فرید کے توسط سے دائر درخواست میں پرویز الہٰی نے سپریم کورٹ پر زور دیا تھا کہ وہ حمزہ شریف، رانا ثنا اللہ اور مریم اورنگزیب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے کیونکہ انہوں نے مبینہ طور پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین اسمبلی کو آئندہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے قبل غائب کرنے کی دھمکی دی۔

پرویز الہی نے جواب دہندگان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لیے 'رن آف پولز' کے انعقاد کے لیے سپریم کورٹ کے یکم جولائی کے حکم کی خلاف ورزی کی۔

درخواست گزار نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ مبینہ توہین کرنے والے افراد کو طلب کرے اور عدالتی ہدایات کی خلاف ورزی کرنے پر انہیں سزا دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری شجاعت کا پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے پرویز الہٰی کی حمایت کا اعلان

گزشتہ روز سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی سماعت کے دوران پرویز الہٰی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ پریس کانفرنس اور ٹاک شو کے ذریعے پی ٹی آئی اراکین صوبائی اسمبلی کو دھمکایا گیا۔

جس پرعدالت نے درخواست گزار کو ہدایت دی تھی کہ پریس کانفرنس، ٹاک شو کا مکمل ٹرانسکرپٹ فراہم کریں، جیسے ہی مکمل ٹرانسکرپٹ فراہم کیا گیا مقدمہ فوری طور پر سماعت کے لیے مقرر کر دیا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024