• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

اسپیکٹرم کی نیلامی: لائسنس کی مدت میں کمی پر ٹیلی کام کمپنیوں کو تحفظات

شائع August 20, 2022
وزیر آئی ٹی سید امین الحق نے اصرار کیا کہ لائسنس کی مدت کو کم کرنے میں کوئی حرج نہیں—فائل فوٹو: رائٹرز
وزیر آئی ٹی سید امین الحق نے اصرار کیا کہ لائسنس کی مدت کو کم کرنے میں کوئی حرج نہیں—فائل فوٹو: رائٹرز

ٹیلی کام سیکٹر میں 2100 میگا ہرٹز بینڈ کے لیے سیلولر اسپیکٹرم کی آئندہ نیلامی میں لائسنس کی مدت میں کمی پر ٹیلی کمیونکیشن کمپنیوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کی سربراہی میں سپیکٹرم آکشن ایڈوائزری کمیٹی نے 10 برس کی مدت کے لیے 2100 میگا ہرٹز بینڈ میں دو 5 میگا ہرٹز بینڈ وتھ سلاٹ نیلام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ٹیلی کام سیکٹر کی زیادہ تر کمپنیوں کا خیال ہے کہ گزشتہ نیلامیوں کے مقابلے میں رواں برس نیلامی سے انہیں 15 سالہ لائسنس کی بجائے صرف 10 برس کی مدت کے لیے لائسنس حاصل ہوسکیں گے۔

انڈسٹری کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ لائسنس کی مدت میں اس کمی سے نہ صرف ٹیلی کام کمپنیوں کے لیے نیلامی میں لائسنس حاصل کرنا سستا ہو جائے گا بلکہ اس سے لائسنس حاصل کرنے والے فریق کو فنڈز (جو بصورت دیگر لائسنس کی ادائیگی کے لیے استعمال ہوجاتے) کو تکنیکی انفراسٹرکچر کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے استعمال کرنے کا موقع ملے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اسپیکٹرم کی نیلامی: حکومت 27 کروڑ 90 لاکھ ڈالر وصول کرے گی

چونکہ پچھلی نیلامی میں 15 سالہ لائسنس کے لیے 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر لاگت تھی، اس لیے 10 سال کے لائسنس کے لیے اصولاً ایک کروڑ 93 لاکھ ڈالر لاگت آئے گی۔

اس حوالے سے گفتگو میں 15 سالہ لائسنس کی حامل کمپنیوں کے حکام (یعنی جاز، زونگ اور یوفون) نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ آپشن ان کے لیے دستیاب نہیں تھا اس لیے یہ ایک آپریٹر کو دیگر کے مقابلے میں زیادہ فائدہ دینے کے مترادف ہوگا کیونکہ انہیں لائسنسنگ کی مد میں کم سرمایہ لگانا پڑے گا۔

وزیر خزانہ نے لائسنس کی مدت میں کمی سے متعلق سوال کا جواب نہیں دیا تاہم آئی ٹی کے وزیر سید امین الحق نے اصرار کیا کہ لائسنس کی مدت کو کم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’2100 میگا ہرٹز بینڈ کو نیلامی کے لیے پیش کیا گیا ہے کیونکہ یہ دستیاب تھا، اس کے علاوہ ٹیلی کمیونکیشن کمپنیوں کی سہولت کے لیے مدت کو کم کیا گیا ہے تاکہ ان کے لیے سرمایہ کاری سستی ہو‘۔

مزید پڑھیں: 'فائیو جی' سروسز شروع کرنے کے حکومتی منصوبے پر ٹیلی کام کمپنیوں کو تحفظات

ایک اور تشویش یہ ہے کہ حکومت صرف 2100 میگا ہرٹز بینڈ کی نیلامی کر رہی ہے جبکہ گزشتہ نیلامی میں رہ جانے والی 1800 میگا ہرٹز بینڈوڈتھ کو نیلام نہیں کیا جارہا۔

ٹیلی کمیونکیشن کمپنی کے ایک سینئر ایگزیکٹو نے بتایا کہ ’یہ نیلامی صرف ٹیلی نار کے لیے موزوں ہے کیونکہ ان کا فور جی 2100 میگا ہرٹز پر کام کرتا ہے جبکہ دیگر 3 ٹیلی کمیونکیشن کمپنیاں 1800 میگا ہرٹز بینڈ میں کام کر رہی ہیں‘۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ٹیلی نار یہ لائسنس حاصل کرلیتا ہے تو وہ پہلے سے ہی اس بینڈ کے اندر کام کرنے والے اپنے تکنیکی انفراسٹرکچر میں کسی تبدیلی کے بغیر جدید فور جی سروسز فراہم کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

لیکن ٹیلی نار پاکستان کی جانب سے اس تاثر کو مسترد کیا جارہا ہے، ایک بیان میں کمپنی نے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ آئندہ ہونے والی نیلامی کا مقصد کسی ایک آپریٹر کی حمایت کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اضافی ٹیلی کام اسپیکٹرم ایک ارب ڈالر میں فروخت کیے جانے کا امکان

کمپنی نے مزید کہا کہ گزشتہ سال اسپیکٹرم نیلامی کی ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیلی نار نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ اس میں دلچسپی رکھنے والی تمام کمپنیوں کو شفاف طریقے سے مزید مناسب شرائط پر اسپیکٹرم فراہم کرے۔

ٹیلی کمیونکیشن کمپنیوں کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیلی نار کم بینڈ میں حاصل ہونے والی پوزیشن کا فائدہ ہائی ویز (خاص طور پر سی پیک کے تحت تعمیر) پر سروس کی فراہمی کے لیے اٹھا سکتا ہے۔

آزاد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس شعبے میں تجربات کی ابھی بھی گنجائش موجود ہے، اسلام آباد میں مقیم ٹیکنالوجی بلاگر اور تجزیہ کار عامر عطا نے کہا کہ ’ ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک کچھ نہ بیچنے کی بجائے ان مشکل وقتوں میں ایک سستا اسپیکٹرم شروع کرنا زیادہ قابل فہم ہے‘۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024