پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کے پیچھے ’نیوٹرلز‘ کا ہاتھ ہے، عمران خان کا الزام
چئیرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیراعظم عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ اُن کی پارٹی کے خلاف کریک ڈاؤن کے پیچھے ’نیوٹرلز‘ کا ہاتھ ہے۔
لاہور کے لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وفاقی سطح پر سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی ہے جو تمام صوبوں میں ہے اور ملک کو اکٹھا رکھ سکتی ہے جبکہ فوج اکیلے ملک کو اکٹھا نہیں رکھ سکتی۔
انہوں نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر ہے کہ انہوں نے شہباز گِل کو اغوا کیا اور ننگا کرکے اس پر تشدد کیا گیا اور جب میرے وکیل ان سے ملنے گئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ شہباز گِل کا کیا حشر کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز گِل ایک پروفیسر ہے جو امریکا میں ایک کالج میں پڑھاتا ہے اور ملک کے لیے آیا کہ وہ بھی نئے پاکستان کے لیے جدوجہد کرے گا تو اس کا کتنا بڑا جرم تھا کہ پہلے اس کی گاڑی کا شیشہ توڑ کر اسے اٹھایا اور پھر ننگا کرکے تشدد کیا اور جب وہ ذہنی طور پر پریشان ہوا تو اس کی تصویریں بنائیں۔
عمران خان نے کہا کہ جن لوگوں نے یہ کیا میں ان سے مخاطب ہوں کہ سوچیں کہ اگر کبھی آپ کے ساتھ ایسا ہوا تو آپ اور آپ کے خاندان پر کیا گزرے گی۔
مزید پڑھیں:خاتون مجسٹریٹ، آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد کے خلاف کیس کریں گے، عمران خان
آئی جی، ڈی آئی جی اسلام آباد پر ایف آئی آر درج کریں گے
انہوں نے کہا کہ تشدد کے بعد سب جھوٹ بولنے میں لگ گئے اور چھپانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس پر تشدد نہیں ہوا، مگر مجھے افسوس ہوا کہ مجسٹریٹ زیبا جب آپ کے سامنے ایک شخص آیا جس پر پولیس تشدد کر چکی تھی تو کیا آپ کو اس پولیس کے واپس بھیجنا چاہیے تھا، کیا آپ کو تفتیش نہیں کرنی چاہیے تھی، انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ آپ کو جب نظر آ رہا تھا کہ وہ بالکل ٹوٹ چکا تھا پھر بھی اس کو واپس پولیس کے پاس بھیج دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد آئی جی اور ڈی آئی جی پر ہم مقدمات کریں گے، میں ساری قوم کو کہتا ہوں کہ آزاد ملکوں میں ایسی چیزیں نہیں ہوتیں بلکہ صرف غلام ملکوں میں ہوتی ہیں جہاں آپ کے حقوق نہیں ہوتے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ نواز شریف، مریم، خواجہ آصف اور دیگر نے فوج کے خلاف جو باتیں کیں ان کے خلاف کارروائی اس لیے نہیں کی کہ وہ طاقتور ہیں اور شہباز گِل امریکا سے آیا کوئی پوچھنے والا نہیں اس لیے اس کے خلاف کارروائی کی اور اس طرح ذلیل کیا، مجھے شرم آتی ہے کہ ہمارے ملک میں انسانوں کو اس طرح ذلیل کیا جاتا ہے مگر اب ہم قانونی طور پر پورا انصاف لیں گے۔
'تقریر براہ راست نہیں چلے گی،کیا جرم کیا ہے'
انہوں نے کہا کہ پیمرا کہتا ہے کہ عمران خان کی تقریر براہ راست نہیں چلے گی تو کیا جرم کیا ہے عمران خان نے، جرم صرف یے کہ چوروں کے ٹولے کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا، چیف الیکشن کمیشن ہر فیصلہ ہمارے خلاف دے رہا ہے اور مجھے نااہل کرنے کی کوشش ہوئی مگر اندر سے پیغام آتا ہے کہ جی میں تو کچھ نہیں کر رہا بوٹ کا پریشر ہے پیچھے سے اور جس طرح پولیس سے پوچھا گیا کہ شہباز گِل پر تشدد کیوں کیا تو وہ بھی کہہ رہے تھے کہ ہمیں پتا نہیں پیچھے سے کچھ ہوا ہے تو وہ بھی آپ کی طرف اشارہ ہے، اسی طرح جو بھی غلط کام ہوتا ہے آپ کا نام لگ جاتا ہے تو میں سوال پوچھتا ہوں کہ کون کس کو بدنام کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نیوٹرلز سے کہتا ہوں ابھی وقت ہے اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں، عمران خان
’مجھے پتا ہے کہ پلان کیا بنا ہوا ہے‘
عمران خان نے کہا کہ میرے گھر جو لوگ ملنے آتے ہیں پولیس نیچے ان کے جوتے اتار رہی ہے کہ کیا کرنے گئے تھے مگر یہ پولیس نہیں کر رہی کیونکہ پولیس ہمیں خود بتاتی ہے کہ پیچھے سے نیوٹرلرز کا حکم ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نیوٹرل ہیں یا نہیں ہیں اور اگر نہیں ہیں تو اس ملک کو اتنا نقصان کیوں پہنچا رہے ہیں اگر ان لوگوں کے ساتھ آپ نے کھڑا ہونا ہے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں کو قوم 30 سال سے چور سمجھتی ہے تو کیا وہ مان جائے گی کہ یہ چور نہیں کیونکہ آپ نیوٹرلز ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ میں اس لیے سب کچھ کہہ رہا ہوں کہ مجھے پتا ہے کہ پلان کیا بنا ہوا ہے، جو مسٹر وائی آیا مجھے پتا ہے کہ کیا پلان بنا کر آیا، مگر جو کرنا ہے کرو میں ساری قوم کو اکٹھا کروں گا اور پھر جو بھی آپ کریں گے اپنی قوم کو نقصان پہنچائیں گے کیونکہ اس وقت وفاقی سطح پر سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے جو تمام صوبوں میں ہے اور ملک کو اکٹھا رکھ سکتی ہے جبکہ فوج اکیلے ملک کو اکٹھا نہیں رکھ سکتی۔
انہوں نے کہا کہ ابھی ہم آئین و قانون کے راستے پر چل رہے ہیں مگر جب سیاسی جماعت ہٹ جائے گی تو پاکستان میں جو حالات ہیں تو عوام کو کون روکے گا جو 22 کروڑ ہے اور اگر سیاسی جماعت کو ختم کرکے چوروں کو ملک پر مسلط کریں گے تو نقصان ملک کا ہوگا۔
عمران خان نے کہا کہ ملک میں ایک مہم چل رہی ہے جس کا مقصد ہے کہ ملک کے عوام کو حقیقی طور پر آزاد ہونے نہ دو، مستقبل ملک کے نوجوانوں کا ہے جن کو فیصلہ کرنا ہے کہ کیا آپ کو اس پاکستان میں رہنا ہے جس کا علامہ اقبال نے خواب دیکھا اور قائد اعظم نے جدوجہد کی یا اس پاکستان میں رہنا ہے جہاں کمزور کے لیے ایک قانون ہے، طاقتور قانون سے بالاتر ہے اور کمزور اپنے حقوق ڈھونڈتا ہے اور طاقتور سارے قانون توڑتا ہے۔
مزید پڑھیں:آزاد میڈیا اور آزادیِ اظہار کے معاملے کو عوامی رابطہ مہم کا حصہ بناؤں گا، عمران خان
انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان جس طرف جا رہا ہے میرے نبی کریم ﷺ نے پندرہ سو برس پہلے فرمایا تھا کہ تمہارے سے پہلے بڑی قومیں تباہ ہوئیں کیونکہ جب کمزور چوری کرتا تھا تو جیل میں ڈالتے تھے اور طاقتور چوری کرتا تھا تو وہ معاشرے کی پکڑ میں نہیں آتے تھے اور آج اگر ہم ایک عظیم قوم نہیں بن سکے تو وہ پندرہ سو سال قبل نبی کریم ﷺ نے جو فرمایا تھا اس کی وجہ سے نہیں بن سکے۔
'حقیقی آزادی کی تحریک کا آغاز آج لیاقت باغ سے کیا ہے'
عمران خان نے کہا کہ جس ملک کے اوپر اس کا سارا کرپٹ ٹولہ، چور اور ڈاکو ایوانوں میں بیٹھ جائے اور عام عادمی اپنے بنیادی حقوق کی تلاش میں ہو، جتنی مرضی چوری کرنی ہے بڑا ڈاکو کرتا رہے اور اس کو پاکستان کا نظام نہیں پکڑتا تو اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہے اس لیے میں نے حقیقی آزادی کی تحریک کا آغاز آج لیاقت باغ سے کیا ہے، یہ ایک تاریخی مقام ہے کیونکہ تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے ساتھ لیاقت علی خان کھڑے تھے جن کی شہادت یہاں ہوئی تھی۔
عمران خان نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جس جدوجہد کے لیے میں آپ کو نکالنے آیا ہوں اب میری ساری قوم تیار ہوجائے کیونکہ یہ آپ کے مستقبل کا مسئلہ ہے عمران خان کو اللہ سب کچھ دے چکا ہے مگر جو کچھ ملک کے ساتھ ہو رہا ہے مجھے آپ عوام کی فکر ہے۔
انہوں نے کہا کہ چور اور ڈاکو جب ملک کی قیادت میں بیٹھے ہوں اور طاقت میں وہ لوگ ہوں جو ذاتی مفادات اور اپنی انا کے لیے ملک کے مستقبل کو تباہ کرتے ہیں اور ان کو صرف عوامی طاقت شکست دے سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اپنی قوم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک حقیقی آزادی نہیں دوں گا تب تک پاکستان کی سڑکوں پر ہوں گا، لوگوں میں جا کر قوم کو اٹھاؤں گا۔
مزید پڑھیں:میں امریکا سے دوستی چاہتا ہوں، غلامی نہیں، عمران خان
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ عمران خان کو بیرونی سازش سے ہٹانے کی ضرورت کیوں پڑی کیا عمران خان ملک کے پیسے چوری کرکے باہر بڑے بڑے محلات خرید رہا تھا، کیا ملک کے پیسے منی لانڈرنگ کر رہا تھا، یا لوگوں کی زمینیں چوری کر رہا تھا یا قبضہ کر رہا تھا اور فیکٹریاں بنا رہا تھا، مگر میں نے جتنی دیر حکومت کی اس سے کم وقت میں جب نواز شریف 1990 میں حکومت میں آیا تو 17 فیکٹریاں بنا چکا تھا اور نواز شریف کو کیوں نکالا، کیونکہ اس نے چوری کی تھی مگر عمران خان کو حکومت سے اس لیے نکالا کیونکہ وہ امریکا کی نوکری نہیں کرنا چاہتا تھا اور ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانا چاہتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آزاد خارجہ پالیسی اپنے عوام کی بہتری کے لیے ہوتی ہے، جو خارجہ پالیسی دوسرے ممالک کے مفادات کی حفاظت کرنے کے لیے ہوتی ہے اور اپنے لوگوں کو دوسروں کی خاطر قربان کرنے کے لیے ہوتی ہے میں اس کے خلاف آیا تھا کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ امریکا کی جنگ میں میری قوم جائے اور اس میں امریکا کے لیے 80 ہزار لوگ قربان ہوں۔
’بھارت کی خارجہ پالیسی آزاد ہے‘
عمران خان نے کہا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ امریکا افغانستان میں ہماری فضائی سرحدوں سے کارروائی کرے اور میرا ملک اس میں ملوث ہو، میں کیوں چاہوں گا کہ افغانستان سے ہمارے تعلقات خراب ہوں، میں چاہتا ہوں کہ ہماری خارجہ پالیسی ہمارے لوگوں کی بہتری میں ہو۔
انہوں نے کہا کہ اگر روس سے مجھے 30 یا 40 فیصد کم قیمت پر تیل ملتا اور میں اپنے لوگوں کو سستا پیٹرول فضل الرحمٰن (ڈیزل) دوں تو وہ کیوں نہ دوں، اگر بھارت روس سے تیل خرید سکتا ہے اور اپنے لوگوں کو 25 روپے سستا پیٹرول اور ڈیزل دے سکتا ہے تو میں کیوں نہ دوں۔
عمران خان نے کہا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی آزاد ہے اور وہ اپنے عوام کے مفاد میں تمام فیصلے کرتا ہے مگر ہمارے یہاں جو لوگ بیٹھے ہیں وہ اپنے لوگوں کو قربان کرکے دوسرے ممالک کے لیے فیصلے کرتے ہیں اور ہم دوسروں کی جنگ میں شامل ہوکر اپنے ملک کی تباہی کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان انتخابات کا اعلان پر پی ڈی ایم سے بات چیت کیلئے تیار
انہوں نے کہا کہ امریکا کی جنگ میں قبائلی علاقے کے لوگوں کے ساتھ جو ظلم ہوا جس طرح سارا قبائلی علاقہ اجڑا، ڈرون حملوں میں عورتیں اور بچے مارے گئے اس پر کوئی بات نہیں کرتا اور ان کی جنگ کی وجہ سے 35 لاکھ قبائلی لوگ نقل مکانی کر گئے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ صرف اس لیے کہ یہاں کچھ صاحب اقتدار بیٹھے ہوئے تھے جنہوں نے تھوڑے ڈالروں کے عیوض اپنے ملک کو وہ نقصان پہنچایا کہ ابھی تک قبائلی علاقہ اس سے نہیں نکلا۔
عمران خان نے کہا کہ میں ہمیشہ کہتا تھا کہ افغانستان میں جس طرح امریکا گیا ہے اس کا کوئی فوجی حل نہیں ہے یہ معاملہ مذاکرات سے حل ہوگا جو کہ ان کو پسند نہیں تھا اور جب امریکا وہاں سے نکلا تو ان کے لوگ بھی کہتے تھے کہ جو میں کہتا تھا وہ ٹھیک تھا لیکن ان کو پسند نہیں تھا کیونکہ ان کو شہباز شریف اور نواز شریف جیسے غلاموں کی عادت تھی جو صدر اوباما کے سامنے پرچی پڑھ کر شکریہ کہتا تھا۔
'او آئی اسی اجلاس میں شرکت پر تکلیف پہنچی'
عمران خان نے کہا کہ باہر ممالک کو تکلیف اس لیے ہوئی کہ پہلی بار پاکستان کا وزیر اعظم او آئی سی کے اجلاس ، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جاتا ہے اور کہتا ہے کہ آزادی اظہار کی آڑ میں جب ہمارے نبی اکرم ﷺ کے شان میں گستاخی کی جاتی ہے تو مسلمانوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے، اسی طرح نہ صرف پاکستان کے پہلے سربراہ بلکہ دنیا کے کسی مسلمان ملک کے رہنما نے بھی ایسی بات نہیں کی اور مجھے فخر ہے کہ اس کی وجہ سے مغربی دنیا کے دو سربراہ ایک روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹس ٹروڈن نے بیان دیے کہ آزادی رائے کی آڑ میں نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی نہیں کر سکتے تو ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
عمران خان نے کہا کہ مجھے ساڑھے تین برس میں 15 مارچ پر فخر ہوا جب اقوام متحدہ نے اینٹی اسلامو فوبیا دن منانے کا فیصلہ کیا جو ان کو پسند نہیں آیا اور پھر پوری سازش ہوئی، ڈونلڈ لو نے دھمکی دی مگر سازش پہلے سے ہوئی پڑی تھی اور ان لوگوں نے تب وہ حکومت گرائی جو اس وقت 17 برس کے بعد سب سے بہتر معاشی ترقی کر رہی تھی، ترقی کی شرح بڑھ رہی تھی ہماری دولت میں اضافہ ہو رہا تھا۔
مزید پڑھیں:آزاد میڈیا اور آزادیِ اظہار کے معاملے کو عوامی رابطہ مہم کا حصہ بناؤں گا، عمران خان
انہوں نے کہا کہ اس حکومت کو ہٹایا گیا جس کی ریکارڈ برآمدات تھیں، ٹیکس کلیکشن ریکارڈ پر تھا اور بیرون ملک پاکستانیوں نے ریکارڈ ترسیلات بھیجیں، ہم نے کسانوں کو بہترین پیکج دیے جس سے فصلوں میں بہترین اضافہ ہوا اور اس لیے یہ حکومت گرائی کہ ان کو عمران خان نہیں جیری بلاسم چاہیے تھا۔
عمران خان نے کہا کہ میں مانگنے نہیں آیا بلکہ قوم کو بیدار کرنے آیا ہوں کہ اگر قوم کھڑی نہیں ہوگی تو اس طرح کے لوگوں کی غلامی کریں گے جو کہتے ہیں کہ ہم بھکاری ہیں، اور ان چار مہینوں میں سفید پوش لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا کہ کس طرح بجلی کے بل ادا کریں، بچوں کی فیس دیں یا کھانا کھائیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سے گئے تو انہوں نے سمجھا پارٹی ختم ہوگئی اور ہمیں سیدھا کرنے کے لیے ایک مسٹر ایکس کو لاہور میں اور مسٹر وائی کو اسلام آباد میں لایا گیا۔