صدر مملکت کا پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ خطاب تاخیر کا شکار
صدر کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے لازمی خطاب 14 اگست کو قومی اسمبلی کے آخری پارلیمانی سال کے آغاز کے ساتھ تاخیر کا شکار ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ موجودہ مخلوط حکومت کو یہ آئینی تقاضا پورا کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے کیونکہ ایوان صدر کے ذرائع نے ڈان کو بتایا انہیں ابھی تک وزارت پارلیمانی امور سے اس سلسلے میں کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔
آئین کے آرٹیکل 56(3) میں کہا گیا ہے کہ 'قومی اسمبلی کے ہر عام انتخابات کے بعد پہلے اجلاس کے آغاز پر اور ہر سال کے پہلے اجلاس کے آغاز پر، صدر ایک ساتھ دونوں ایوانوں سے خطاب کریں گے اور پارلیمنٹ کو اس کی طلبی کی وجوہات سے آگاہ کریں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کا خطاب آخری لمحات میں منسوخ
قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف پہلے ہی دو بار پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بغیر کوئی وجہ بتائے ملتوی کر چکے ہیں اور اب یہ اجلاس 22 ستمبر کو ہونا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ کیا حکومت صدر کو 22 ستمبر کو مشترکہ اجلاس سے خطاب کے لیے مدعو کرے گی یا اس مقصد کے لیے خصوصی اجلاس بلائے گی۔
دوسری جانب ایوان صدر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ متعلقہ عملے نے خطاب کا مسودہ پہلے ہی تیار کر لیا ہے جسے جلد منظوری کے لیے صدر عارف علوی کو بھیجا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی کی روش کے مطابق انہوں نے تمام وزارتوں کو خطوط بھیجے تھے جن میں صدر کو گزشتہ پارلیمانی سال کی کارکردگی سے آگاہ کرنے کا کہا گیا تھا اور تقریر تمام وزارتوں سے ان پٹ حاصل کرنے کے بعد تیار کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: حکومت صدارتی خطاب کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے میں تذبذب کا شکار
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر رضا ربانی کے مطابق پارلیمانی جمہوریت والے ممالک میں یہ روایت رہی ہے کہ صدر موجودہ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ تحریری تقریر کرتا ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ صدر سیاق و سباق کو تبدیل کیے بغیر متن میں تبدیلیاں کر سکتے ہیں اور چونکہ یہ محض ایک روایت تھی اس لیے پاکستان میں متعدد سابق صدور نے اپنی تحریری تقریریں کرنے کو ترجیح دی۔
اس کے بعد دونوں ایوانوں کے ارکان صدر کے خطاب پر عام بحث کرتے ہیں جس کے لیے آئین یا دونوں ایوانوں کے قواعد میں کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا ہے۔
صدر عارف علوی اس سے قبل ماضی کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مبینہ طور پر پی ٹی آئی حکومت کے تحت ریکارڈ تعداد میں آرڈیننس جاری کرکے پارلیمنٹ کو کمزور کرنے کے الزام میں شدید تنقید کا نشانہ بنے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: رپورٹرز کا صدر کے خطاب کے بائیکاٹ کا اعلان
جب سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ممبران کی تقرری اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق ان کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا تو اپوزیشن نے ان کے مواخذے کے لیے قرارداد پیش کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
بعدازاں صدر عارف علوی نے اس سال اپریل میں عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ملک کے وزیر اعظم منتخب ہونے والے شہباز شریف سے حلف لینے سے انکار کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ وہ اس وقت ایک بار پھر تنقید کی زد میں آئے تھے جب انہوں نے انتخابی اصلاحات اور نیب ترمیمی بلوں کی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے باوجود منظوری دینے سے انکار کردیا تھا۔
عارف علوی ستمبر 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پہلے ہی چار مرتبہ پارلیمنٹ سے خطاب کر چکے ہیں جب ان کی پارٹی، پی ٹی آئی ملک پر حکومت کر رہی تھی اور انہوں نے ہمیشہ پی ٹی آئی کی تعریف کی۔
پارلیمانی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار صدر کو مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ انہیں دو مختلف حکومتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینا پڑے گا۔