آئی اے ای اے کی تحقیقات ختم ہوئے بغیر جوہری معاہدہ بے معنی ہے، ایرانی صدر
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنا اُس وقت تک بے معنی ہوگا جب تک اقوام متحدہ کا ادارہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) غیر اعلانیہ مقامات کی تحقیقات کو ختم نہیں کر دیتا۔
ڈان اخبار میں شائع غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ابراہیم رئیسی کا یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب ایران تاریخی معاہدے پر یوپی یونین کی جانب سے پیش کردہ حتمی متن پر اپنی تجاویز پر امریکی ردعمل کا جائزہ لے رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران جوہری معاہدے کو مزید التوا میں نہیں رکھا جاسکتا، جرمنی
امریکا کا کہنا ہے ایران اپنے 3 غیر اعلانیہ جوہری مقامات کی تحقیقات پر شکوک کو دور کرنے کے لیے عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرے۔
ابراہیم رائیسی نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ مذاکرات میں حفاظتی امور بنیادی مسائل میں سے ایک ہے، حفاظتی اقدامات کے حوالے سے تمام مسائل کو حل کرنا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حفاظتی مسائل کو حل کیے بغیر معاہدے کے بارے میں بات کرنا بے معنی ہے، انہوں نے کہا کہ آئی اے ای اے نے جوہری مواد کے نمونے ملنے کو حفاظتی اقدامات کا مسئلہ قرار دیا۔
ایران نے زور دیتے ہوئے کہا کہ کسی بھی معاہدے کی بحالی سے پہلے ان مسائل کو ختم کیا جائے لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’ایران جوہری معاہدہ اور غیر اعلانیہ مقامات کے درمیان کسی بھی شرط کو تسلیم نہیں کرتے‘۔
مزید پڑھیں: جوہری معاہدہ: ایران کا مطالبات تسلیم کرنے پریورپی یونین کی تجاویز قبول کرنے کا عندیہ
آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں ایران کے تین مقامات پر یورینیم دریافت ہونے پر ایران کی جانب سے تسلی بخش وضاحت نہیں دی گئی۔
امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے غیر اعلانیہ مقامات پر تحقیقات کو بند کرنے کے خیال کو مسترد کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی بنیادوں کے خیال کی وجہ سے اپنا کام روکنا ناقابل قبول ہے، ایران نے ہمیں تکنیکی اعتبار سے تسلی بخش وضاحتیں نہیں دیں ہیں‘، ایران کے ساتھ 6 عالمی طاقتوں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکا کے درمیان طے پانے والے معاہدے نے ایران کو جوہری پروگرام پر پابندیوں میں نرمی دی۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کے ساتھ جوہری نگرانی کا معاہدہ، مذاکرات کی اُمید بڑھ گئی
2018 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے یکطرفہ معاہدہ کو ترک کرنے کے فیصلے کے بعد2021 میں جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد انہوں نے معاہدہ کو بحال کرنے کی کوششیں کیں۔
ویانا مذاکرات کا مقصد امریکا کی جوہری معاہدے پر واپسی ، ایران پر سے پابندیاں ہٹانے کے ساتھ عالمی برادری سے کیے گئےوعدوں کی شمولیت بھی مقصودہے، ویانا مذاکرات گزشتہ سال اپریل میں شروع ہوئے تھے۔
تہران اور واشنگٹن کے درمیان بلواسطہ مذاکرات یورپی یونین کی ثالثی کے ذریعے ہوتے رہے ہیں، ابراہیم رئیسی سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ اگلے ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران جوبائیڈن سے ملاقات کریں گے؟جس کے جواب میں انہوں نے ملنے سے صاف انکار کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جوبائیڈن کے ساتھ ملاقات کا کوئی فائدہ ہے نہ ہوگا کیونکہ ان کے ساتھ ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں‘۔
مزید پڑھیں: جوہری تنازع: ایران کی 'آئی اے ای اے' کے سربراہ کو مذاکرات کی دعوت
دوسری جانب ایران کا حریف ملک اسرائیل اپنے اتحادی ملک امریکا اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ایران میں جاری جوہری مذاکرات کو روکنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم یائر لاپڈ کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ کسی بھی نئے معاہدے میں اس کی اختتامی میعاد کے ساتھ ساتھ سخت نگرانی کو بھی شامل کیا جائے اور ایران کے بیلسٹک میزائل پر توجہ دی جائے‘۔