کوہستان کا زمینی رابطہ منقطع، شہری اپنی مدد آپ کے تحت مرمتی کام میں مصروف
پاکستان میں سیلاب سے انفراسٹرکچر تباہ ہونے کے باعث کئی علاقوں کے رہائشی سڑکوں کی تعمیرنو اور رابطہ سڑکوں کی بحالی کے لیے حکومت کی مدد کے منتظر ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق کوہستان کے مقامی شہری کئی روز سے حکومتی امداد کا انتظار کرتے رہے لیکن اُن کی مدد کو کوئی نہ پہنچا جس کے بعد مقامی شہریوں نے انفراسٹرکچر کی تعمیر کا کام اپنی مدد آپ کے تحت شروع کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بالائی کوہستان میں سیلاب کے باعث 50 مکانات بہہ گئے
سوات میں کالام وادی کے سابق ناظم حبیب اللہ نے ڈان کو بتایا کہ ’اگر ہم حکومت کا انتظار کرتے رہے تو سڑکوں کی بحالی کے کام میں کئی برس لگ جائیں گے‘۔
حبیب اللہ اُن 200 مقامی لوگوں میں شامل ہیں جو کالام کو سوات کی تحصیل بحرین سے ملانے والی سڑک کی مرمت کررہے ہیں، اِس سڑک کا بڑا حصہ سیلابی پانی کے ریلے میں بہہ گیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’حکام کی جانب سے ماضی میں بھی سڑکوں کی بحالی کے کام میں کافی وقت لگ گیا لہٰذا ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت چھوٹے آلات کا استعمال کرتے ہوئے سڑکوں کی بحال کا کام شروع کیا ہے‘۔
اُنہون نے کہا کہ اگر تعمیرنو کا کام جلد شروع نہ کیا تو سڑک بند ہونے سے ادویات اور خوراک کی قلت کے باعث بالائی علاقوں کے شہریوں کی جان بھی جاسکتی ہے جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔
مزید پڑھیں: سیلاب سے خیبرپختونخوا کے علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع، امدادی کارروائیاں جاری
بحرین کے مقامی شہری زبیر توروالی کا مقامی زبان میں کہنا تھا کہ اس شہر کا ملک کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہونے کے باعث خوراک کی فراہمی کے لیے پہاڑوں پر خطرناک سفر کرنے کے علاوہ اُن کے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سڑکوں میں بحرین کے شہری کھانے کے تھیلے اپنے پیٹھ پر لاد کر رسیوں کے ذریعے پہاڑوں پر چڑھتے ہیں، بحرین میں سڑک کا کوئی نام ونشان نہیں ہے اور نہ پیدل چلنے کا کوئی راستہ ہے کیونکہ یہ سب پارش کے پانی میں بہہ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اپر کوہستان میں سیلاب کے باعث پُل بہہ گیا
مقامی شہری سڑک کی مرمت اپنی مدد آپ کے تحت کرنے کے باوجود حکومت سے مدد کی اپیل کرنے پر زور دتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت ان علاقوں کے جلد رابطے بحال کرے تاکہ بحرین اور کالام کے دور دراز علاقوں تک انتہائی ضروری امداد اور ادویات کی آمدورفت کو دوبارہ بحال کیا جاسکے۔
زبیر توروالی کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں طبی عملہ بھیجنے کی اشد ضرورت ہے، سیلاب زدگان کو حکومت اور بین الاقوامی امداد کی اشد ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر سڑکوں، پُلوں اور دیگر انفراسٹرکچر کی بحالی کے لیے جلد کام شروع کرے۔
بالائی کوہستان کی تحصیل کنڈیا میں بھی سڑکوں کا وہی حال ہوا ہے جو سوات میں ہوا تھا، وادی کالام کے باشندے اپنی مدد آپ کے تحت سڑک کی تعمیر نو میں حصہ لے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: سیلاب زدہ دادو کے ایک ضلع میں پانی کی سطح 8 فٹ تک پہنچ گئی، امدادی سرگرمیاں جاری
تحصیل کنڈیا سے تعلق رکھنے والے ماہر تعلیم حفیظ رحمٰن کے مطابق تحصیل کی مرکزی سڑک ایک دہائی میں تیسری بار سیلابی پانی کے ریلے میں بہہ گئی ہے، مرکزی سڑک ٹوٹنے سے مکینوں کا زمینی رابطہ ایک ہفتے سے منقطع ہوگیا ہے، میں اپنے کزن کے ساتھ صبح سویرے گھر سے نکل کر ٹوٹی نامی سڑک پہنچنے کے لیے دشوار گزار پہاڑی راستے پیدل چل کر طے کرتا ہوں۔
حفیظ رحمٰن اور اُن کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ انہیں اُمید ہے کہ وہ سڑک کی بحالی کا کام اتنا تو کرہی لیں گے کم از کم پِک اپ گاڑی کی کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ علاقوں تک رسائی ہوسکے اور مریضوں کو اسپتال منتقل کیا جاسکے۔
ان کاکہنا تھا کہ وہ سڑک کے 200 میٹر حصے کی مرمت کا کام کرنے میں کامیاب ہوگئےہیں۔
کنڈیا کے ایک اور رہائشی غلام مرتضیٰ نے ڈان کو بتایا کہ جب مقامی لوگوں نے ٹوٹی سڑک ک مرمتی کا کام شروع کیا تو متعلقہ حکام نے جاپان پُل کے قریب سڑک کی تعمیرنو کام شروع کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا میں بارشوں کے بعد بدترین سیلاب، کئی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ
بالائی کوہستان کے اسسٹنٹ کمشنر حافظ محمد وقار کا کہنا تھا کہ سڑک کا مرمتی کام شروع کردیا گیا ہے۔
غلام مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ 2010 اور 2016 کے سیلاب کی طرح اس بار بھی تقریباً 200 سے250 رضاکاروں نے سڑک کے مرمتی کام میں حصہ لیا۔
انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ 10 سے 15 دنوں میں سڑک کا مرمتی کام مکمل ہوجائے گا۔
مشتاہر خان نے پریشانی کے عالم میں ڈان کو بتایا کہ ان علاقوں کے کئی گھروں میں خوراک ختم ہوچکی ہے جبکہ ادویات اور طبی عملہ بھی دستیاب نہیں ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے جیشوے گاؤں کی 3 سالہ بچی کا ہیضے سے انتقال ہوگیا، سیلاب کے بعد ہیضے کی بیماری علاقے میں تیزی سےپھیل رہی ہے، جس کی وجہ سے شہری دوسرے علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہیں۔