سپریم کورٹ سے امیدواروں کو متعدد نشستوں پر ایک ساتھ انتخاب لڑنے سے روکنے کی استدعا
سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی ہے جس میں امیدواروں کو ایک سے زیادہ حلقوں میں انتخاب لڑنے سے روکنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت کی استدعا کی گئی کیونکہ اس طرح کا عمل 'عوامی پیسے اور وقت کا ضیاع' اور 'سیاسی استحصال' کے مترادف ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ درخواست ننکانہ صاحب میں این اے 118 کی نشست کے امیدوار کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس نے متعدد نشستوں پر الیکشن لڑنے کے پیچھے کی منطق پر سوال اٹھایا اور صحیح توازن قائم کرنے کے لیے 'دو نشستوں کے اصول' کی سفارش کی۔
ایڈووکیٹ میاں آصف محمود نے مفاد عامہ میں درخواست کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا امیدوار اپنے آبائی حلقے کے علاوہ کسی اور علاقے سے الیکشن لڑ سکتے ہیں جبکہ وہ مقامی لوگوں کے مسائل کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا تمام 9 حلقوں سے خود ضمنی الیکشن لڑنے کا فیصلہ
خیال رہے کہ یہ نشستیں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی جانب سے پی ٹی آئی کے ایم این ایز کے استعفے منظور کیے جانے کے بعد خالی ہوئی تھیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے آئندہ ضمنی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے کے بعد درخواست گزار نے عدالت سے رجوع کیا۔
درخواست میں سپریم کورٹ سے یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ عمران خان کو اس وقت تک الیکشن لڑنے سے روکا جائے جب تک وہ بطور رکن قومی اسمبلی مستعفی نہیں ہو جاتے۔
درخواست میں عمران خان، وفاقی حکومت کے ذریعے کابینہ ڈویژن، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی)، وزارت قانون اور اٹارنی جنرل پاکستان کو فریق بنایا گیا ہے۔
پٹیشن میں عام انتخابات میں ایک ہی امیدوار کے متعدد نشستوں پر الیکشن لڑنے کے لیے انتخابی قانون میں موجود خامی کو اجاگر کیا گیا اور استدعا کی گئی کہ اسے دور کیا جائے کیونکہ یہ سیاسی استحصال کے مترادف ہے۔
مزید پڑھیں: عمران خان کو قومی اسمبلی کے حلقے 108 اور 118 سے بھی ضمنی الیکشن لڑنے کی اجازت
درخواست میں 2018 کے عام انتخابات کے تجربے کا بھی حوالہ دیا گیا، جب متعدد امیدواروں نے ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑا، جیسے عمران خان جنہوں نے ایک ساتھ 5 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا اور ان میں سے تمام جیتیں اور بعد میں 4 نشستیں خالی کیں۔
نتیجتاً ای سی پی کو ان تمام نشستوں پر دوبارہ پولنگ کرانا پڑی، اسی طرح پی ٹی آئی کے سابق رہنما علیم خان نے 7سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑا اور پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے 3 نشستوں پر الیکشن لڑا۔
پٹیشن میں کہا گیا کہ عام انتخابات میں اپنے چہروں کو بچانے اور اقتدار کے گلیاروں میں اپنی اپنی جماعتوں کی مستقل حکمرانی کے لیے امیدواروں کے متعدد نشستوں پر انتخاب لڑنے کے فیصلے کی سیاسی منطق ہو سکتی ہے لیکن قانونی طور پر یہ رجحان قابل اعتراض ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ متعدد نشستوں پر مقابلہ کرنے والے ایک فرد کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پارٹی قائدین کا ایک سے زائد حلقوں سے انتخابی معرکے میں حصہ لینے کا فیصلہ
درخواست میں کہا گیا کہ 'یہ عام انتخابات اور ضمنی انتخابات کے دوران ای سی پی کے وسائل کا ضیاع ہے' اور کہا گیا کہ عام انتخابات میں کسی فرد کا مقابلہ کرنے والی نشستوں کی زیادہ سے زیادہ حد مقرر کی جانی چاہیے۔
پٹیشن میں پارلیمنٹ اور ای سی پی کی جانب سے دو سیٹوں کا اصول بھی تجویز کیا گیا، جیسے کہ قومی اسمبلی کی سطح پر ایک امیدوار کو امیدوار کی پسند کے دو صوبوں میں دو مقابلوں تک محدود کیا جا سکتا ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ متبادل کے طور پر ایک امیدوار کو ایک ایم این اے اور ایک ایم پی اے کی نشست پر مقابلہ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔