کامران ٹیسوری کی ایم کیو ایم میں واپسی، بطور ڈپٹی کنوینر بحال
متحدہ قومی موومنٹ-پاکستان (ایم کیو ایم-پی) نے اپنی رابطہ کمیٹی کے سابق رہنما کامران ٹیسوری کو پارٹی میں واپس شامل کرلیا ہے جنہیں اس سے قبل پارٹی کے اندر اس تقسیم کا ذمہ دار سمجھا جاتا رہا ہے جس کے نتیجے میں ڈاکٹر فاروق ستار کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 22 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی شرانگیز تقریر کے بعد پارٹی دو حصوں (ایم کیو ایم-پاکستان اور ایم کیو ایم-لندن) میں تقسیم ہو گئی تھی۔
بعد ازاں کاروباری شخصیت کامران ٹیسوری کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر پارٹی مزید ایم کیو ایم بہادر آباد اور ایم کیو ایم-پی آئی بی میں تقسیم ہو گئی تھی جو اس وقت ڈپٹی کنوینر تھے اور ڈاکٹر فاروق ستار کے پسندیدہ تھے۔
اختلاف کی وجہ سے ڈاکٹر فاروق ستار نے بہادر آباد دھڑے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور اپنا علیحدہ گروپ ایم کیو ایم-پی آئی بی بنا لیا۔
یہ بھی پڑھیں: کامران ٹیسوری کا ایم کیو ایم پاکستان سے علیحدگی کا اعلان
سینیٹ کی نشستوں پر ایم کیو ایم (پاکستان) کے 4 امیدواروں میں سے کامران ٹیسوری سمیت 3 امیدوار الیکشن ہار گئے تھے، بعد ازاں دونوں دھڑوں نے متحد ہو کر جولائی 2018 کے عام انتخابات ایک پلیٹ فارم سے لڑے۔
تاہم ان انتخابات میں ایم کیو ایم نے کراچی میں قومی اسمبلی کی 21 میں سے صرف 4 نشستیں حاصل کیں، بعد ازاں کامران ٹیسوری کے معاملے پر اختلافات دوبارہ ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیو ایم بہادر آباد سے نکالنے کا سبب بنے۔
گزشتہ 4 برسوں کے دوران ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیو ایم-پاکستان میں دوبارہ لانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، تاہم وہ اس بات پر مصر رہے کہ کامران ٹیسوری کو وہی عہدہ دیا جائے جو پارٹی چھوڑنے سے پہلے ان کے پاس تھا۔
حال ہی میں ڈاکٹر فاروق ستار کی ایم کیو ایم میں واپسی تقریباً نزدیک دکھائی دینے لگی تھی لیکن آخری لمحات میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کی قیادت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: نائن زیرو سے نیٹو اسلحہ برآمد، ولی بابر کا قاتل گرفتار
ڈاکٹر فاروق ستار نے حلقہ این اے 245 پر گزشتہ ماہ ہونے والے ضمنی انتخاب میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا تھا جہاں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ایم کیو ایم (پاکستان) کے ایک رہنما نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘فاروق بھائی کو واضح الفاظ میں کہہ دیا گیا تھا کہ کامران ٹیسوری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور وہ ایک کارکن کے طور پر پارٹی میں واپس آسکتے ہیں، جہاں تک میری معلومات ہے فاروق بھائی نے بھی اس سے اتفاق کیا تھا’۔
ذرائع نے اشارہ دیا کہ یہ صورتحال سیاسی جماعتوں پر بعض حلقوں کے اثر و رسوخ کی بہترین مثال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چند روز قبل ایم کیو ایم (پاکستان) کے مرکزی رہنماؤں نے بااختیار قوتوں کے ساتھ ایک ملاقات کی جس میں کامران ٹیسوری کو ان کے سابق عہدے پر بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
نتیجتاً ایم کیو ایم (پاکستان) کے کنوینر نے جمعرات شب ایک پریس کانفرنس کی جہاں انہوں نے تمام ناراض اور غیر فعال کارکنان اور رہنماؤں سے کہا کہ وہ واپس آئیں اور پارٹی میں شامل ہو جائیں۔
یہ بھی پڑھیں: نائن زیرو پر چھاپہ: رینجرز حقائق جاری کرے گی
بعد ازاں پارٹی کی جانب سے جمعرات کی شب جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ ‘رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جہاں ایم کیو ایم کی کال پر پارٹی میں واپس آنے والے تمام افراد کا پرتپاک استقبال کیا گیا’۔
بیان میں کہا گیا کہ کامران ٹیسوری نے اپنے ساتھیوں سمیت پارٹی میں دوبارہ شمولیت اختیار کر لی ہے اور اجلاس میں انہیں رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر کے عہدے پر بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
پارٹی نے پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے 3 سابق رہنماؤں ڈاکٹر صغیر احمد، وسیم آفتاب اور سلیم تاجک کو بھی اپنی رابطہ کمیٹی کا رکن بنایا جو چند ماہ قبل ایم کیو ایم (پاکستان) میں واپس آئے تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پارٹی کے سینئر رہنماؤں خواجہ اظہار الحسن اور عبدالوسیم کو بھی پارٹی کا ڈپٹی کنوینر بنا دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: ایم کیو ایم پاکستان کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان، متحدہ اپوزیشن سے معاہدے پر دستخط
اس اعلان کے بعد ایم کیو ایم (پاکستان) کے حامیوں نے اس فیصلے کے بارے میں سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کیا، کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ کامران ٹیسوری نے ڈاکٹر فاروق ستار کی ‘پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا’ جبکہ دیگر کو ایم کیو ایم (پاکستان) کے ناراض سابق کنوینر کو واپس نہ شامل کرنے کی کوئی وجہ نہ نظر آئی۔
ایم کیو ایم کے سابق ڈپٹی کنوینر ناصر جمال نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ‘کامران ٹیسوری کا ڈپٹی کنوینر بننا ایک بھدا اور بھونڈا مذاق ہے، آپ کیسے ایک اجنبی آدمی میں کو اپنے گھر میں گھسا سکتے ہیں، اسے ڈپٹی کنوینر کے طور پر کسی صورت قبول نہیں کیا جانا چاہیے، ایم کیو ایم کے کارکنان کو شدت سے مخالفت کرنی چاہیے’۔
ایم کیو ایم (پاکستان) کے ایک اور رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘لوگ اکثر ہم پر پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کے بدلے کچھ حاصل نہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں، وہ اب اس سب کے پیچھے کی وجہ سمجھ سکتے ہیں’۔