متاثرین کے لیے ملنے والی امداد کہاں ہے؟ ارمینہ خان کا سوال
مختلف سماجی مسائل پر کھل کر بات کرنے والی مقبول اداکارہ ارمینہ خان نے غذائی قلت کے باعث بچوں کی اموات کی خبریں سامنے آنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے سوال کیا ہے کہ ملنے والی رقم کہاں ہے؟
ارمینہ خان نے ٹوئٹر پر صحافی و میزبان عارفہ نور کی جانب سے شیئر کی گئی ایک خبر کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا۔
اداکارہ نے جس خبر کو ری ٹوئٹ کیا، اس میں بتایا گیا تھا کہ سیلاب سے متاثر سندھ کے ضلع خیرپور میں ایک سال کی بچی خوراک نہ ملنے کے باعث انتقال کر گئیں۔
خبر میں بتایا گیا تھا کہ بچی پوری رات غذا کے لیے روتی رہی تھیں مگر کوٹ ڈیجی کے ریلیف کیمپ میں موجود مذکورہ بچی خوراک نہ ملنے کے باعث زندگی کی بازی ہار گئیں۔
اداکارہ نے مذکورہ خبر کو شیئر کرتے ہوئے اس پر اظہار افسوس کرنے کے علاوہ حکومت اور انتظامیہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور سوال کیا کہ آخر متاثرین کی مدد کے لیے ملنے والی اتنی رقم کہاں ہے؟
یہ بھی پڑھیں: سیلاب سے پیدا ہونے والے بحران کے باعث جی ڈی پی میں 2 فیصد کمی کا تخمینہ
انہوں نے غذا نہ ملنے کے باعث بچی کی موت کو دل دہلانے والے واقعہ قرار دیا اور لکھا کہ خبر پڑھ کر ان کا دل ٹوٹ گیا۔
اداکارہ نے اپنی ایک اور ٹوئٹ میں حکومت سے سوال کیا کہ آخر سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے ملنے والی رقم کہاں ہے اور اب تک لوگ بھوک سے کیوں مر رہے ہیں؟
انہوں نے کسی بھی حکومتی عہدیدار یا ادارے کو ٹوئٹ میں مینشن نہیں کیا، تاہم ان کی ٹوئٹ پر مداحوں نے کمنٹس کیے کہ متاثرین کی مدد کے لیے ملنے والے پیسے انتظامیہ اور سیاستدانوں کی جیبوں میں جا رہے ہیں۔
ارمینہ خان کے علاوہ بھی سوشل میڈیا پر متعدد صحافی اور سماجی رہنما سوالات اٹھا رہے ہیں کہ آخر تاحال سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حکومتی امدادی ٹیموں کو کیوں نہیں دیکھا جا رہا اور اب تک دنیا بھر سے آنے والے سامان کی تقسیم کیوں نہیں کی جا رہی؟
اس وقت بلوچستان، سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے 50 کے قریب اضلاع سیلاب سے شدید متاثر ہیں اور ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔
تاحال ملک بھر میں لاکھوں لوگ بے یارومددگار کھلے آسمان تلے سیلاب کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ایسے لوگ کئی کئی گھنٹوں تک بھوک کا شکار بھی رہتے ہیں اور وہاں صفائی کے مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔