• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

بلوچستان: سیلاب متاثرین کو پناہ دینے کیلئے قدیمی مندر کے دروازے کھول دیے گئے

شائع September 12, 2022
بلوچستان میں ہندو برادری نے سیلاب متاثرین کو پناہ دینے کے لیے مندر کے دروازے کھول دیے —فوٹو: ڈان نیوز
بلوچستان میں ہندو برادری نے سیلاب متاثرین کو پناہ دینے کے لیے مندر کے دروازے کھول دیے —فوٹو: ڈان نیوز

بلوچستان کے علاقے ضلع کچھی کے دور درواز علاقے میں مقامی ہندو برادری نے سیلاب متاثرین کے لیے قدیم مندر کے دروازے کھول کر جہاں مذہبی رواداری کا پیغام دیا وہیں انسانوں کے ساتھ ساتھ مویشیوں کو بھی سیلابی صورت حال میں پناہ دی۔

بلوچستان کے ضلع کچھی میں واقع ایک چھوٹے گاؤں جلال خان تاحال تک سیلاب کے زیر ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر گھر منہدم ہوئے اور ہر طرف تباہی مچی ہوئی ہے۔

ناری، بولان اور لہری دریاؤں میں سیلاب کی وجہ سے اس چھوٹے سے گاؤں کا رابطہ باقی صوبے سے منقطع ہوگیا تھا اور دور دراز علاقوں کے شہریوں کو وہاں سے دوسری جگہ منقتل ہونے کا موقع ہی دستیاب نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں جاریں، مزید 15 افراد جاں بحق

ایسے امتحان کے وقت میں گاؤں کی مقامی ہندو برداری نے سیلاب سے متاثرہ افراد اور مویشیوں کے لیے بابا مدھوداس مندر کے دروازے کھول دیے۔

شہریوں کا کہنا تھا کہ بابا مدھوداس تقسیم سے قبل ایک ہندو درویش تھے جن کو علاقے کے مسلمان اور ہندو یکساں طور پر پسند کرتے تھے۔

بھاگ ناری تحصیل سے مسلسل اس گاؤں میں آنے والے ایک سیاح الطاف بزدار نے کہا کہ ’بابا موھوداس اونٹوں پر سفر کیا کرتے تھے‘۔

بلوچستان بھر سے ہندو عبادت گزار اکثر اس عبادت گاہ میں آتے ہیں، یہ مندر کنکریٹ سے بنا ہے اور ایک بڑے علاقے پر محیط ہے، چونکہ یہ اونچی جگہ پر واقع ہے اس لیے یہ سیلاب کے پانی سے نسبتاً محفوظ رہتا ہے اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے ان کی مشکل گھڑی میں پناہ گاہ کا کام کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں سیلاب، ڈوبتے بچوں کی تصاویر نے دل دہلادیے

جلال خان میں رہنے والی ہندو برادری کے متعدد لوگ روزگار اور ملازمتوں کے حصول کے لیے کچھی کے دیگر شہروں میں نقل مکانی کر چکے ہیں مگر چند خاندان اس تاریخی مندر کی دیکھ بھال کے لیے ابھی تک وہیں مقیم ہیں۔

بھاگ ناری تحصیل میں اپنی دوکان چلانے والے 55 سالہ رتن کمار اس وقت مندر کے نگران ہیں، جن کا کہنا تھا کہ ’مندر میں ایک سو سے زائد کمرے ہیں کیونکہ سندھ اور بلوچستان سے ہر سال بڑی تعداد میں زائرین یہاں حاضری دینے آتے ہیں‘۔

رتن کمار کے بیٹے ساون کمار نے ڈان کو بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ مندر کو غیر معمولی بارشوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا، چند کمروں کو نقصان پہنچا ہے لیکن مجموعی طور پر ڈھانچہ محفوظ رہا۔

انہوں نے کہا کہ کم از کم 200-300 افراد جن میں زیادہ تر مسلمان تھے اور ان کے مویشیوں کو مندر کے احاطے میں پناہ دی گئی اور ہندو خاندانوں نے ان کی دیکھ بھال کی۔

ابتدائی طور پر یہ علاقہ باقی صوبے سے منقطع ہوگیا تھا جہاں بے گھر ہونے والے افراد نے کہا کہ انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے راشن دیا گیا مگر جب وہ مندر میں منتقل ہوئے تو ہندو برادری نے ان کی دیکھ بھال کی اور وقت پر کھانا دیا۔

رپورٹ کے مطابق جلال خان میں کام کرنے والے ڈاکٹر اسرار مغیری نے علاقے میں پہنچتے ہی مندر کے نزدیک طبی کیمپ قائم کردیا ہے۔

ڈاکٹر اسرار مغیری نے ڈان کو بتایا کہ مقامی لوگوں کے علاوہ ہندو برادری نے دیگر جانروں کے ساتھ ساتھ بکریوں اور بھیڑوں کو بھی رکھا ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: وزیراعظم کا سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ، متاثرین کو فوری معاوضہ فراہم کرنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ مقامی ہندو برادری نے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرکے مسلمان برادری کو مندر میں پناہ لینے کی دعوت دی تھی۔

مندر میں پناہ لینے والوں کا کہنا تھا کہ وہ اس مشکل گھڑی میں ان کی مدد کے لیے آنے اور انھیں خوراک اور رہائش فراہم کرنے پر ہم مقامی برادری کے مقروض ہیں۔

مقامی ہندو برادری کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کے لیے مندر کے دروازے کھولنا انسانیت اور مذہبی رواداری کا پیغام ہے جو ان کی صدیوں پرانی روایت ہے۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024