سوات اور کوہاٹ میں دھماکے، امن کمیٹی کے رکن اور پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد جاں بحق
خیبر پختونخوا کے 2 اضلاع گزشتہ روز چند گھنٹوں کے اندر دھماکوں سے لرز اٹھے، کوہاٹ میں ایک پولیس اسٹیشن جبکہ سوات میں امن کمیٹی کے ایک سابق سربراہ اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وادی سوات کی تحصیل کبل میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ اور 2 پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد جاں بحق ہوگئے۔
امن کمیٹی کے سابق سربراہ ادریس خان، 2 پولیس گارڈز رامیل اور توحید اور ایک بچہ کوٹاکے سے بنڈائی گاؤں جا رہے تھے کہ کچی سڑک پر نصب بم پھٹ گیا، جس سے چاروں افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔
دھماکے میں 2 راہگیر بھی جاں بحق ہو گئے جن میں سے ایک کی شناخت ثنا اللہ کے نام سے ہوئی۔
مزید پڑھیں: سوات: تبلیغی مرکز میں دھماکے سے 21 افراد ہلاک
ریسکیو 1122 کے اہلکاروں نے زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا تاہم تمام 6 افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا کہ ادریس خان تقریباً 13 برس سے ان کی ہٹ لسٹ پر تھے۔
ادریس خان نے 2007 میں سوات کے وسیع علاقے پر طالبان کے قبضے کے بعد ان کے خلاف مزاحمت کو متحرک کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا، انہیں ان کی بہادری کے اعتراف میں گاؤں کی امن کمیٹی کا چیئرمین نامزد کیا گیا تھا اور وہ ماضی میں متعدد جان لیوا حملوں سے بال بال محفوظ رہے تھے۔
دھماکے کے فوری بعد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) سے رپورٹ طلب کرلی۔
وزیر اعلیٰ نے جاں بحق ہونے والوں کے اہلخانہ سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’شہیدوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘
یہ بھی پڑھیں: سوات میں دھماکہ، امن کمیٹی کے سربراہ کے بیٹے ہلاک
درین اثنا بارا بندئی کے ایک رہائشی نے ڈان کو بتایا کہ امن کمیٹی کے اراکین کو کافی عرصے سے کالعدم تنظیموں اور عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے خطرہ تھا کیونکہ جنگ کے دوران ان لوگوں نے طالبان کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہوئے ان کی مخالفت کی تھی۔
سوات میں امن کمیٹی کا قیام اس وقت عمل میں لایا گیا تھا جب 2007 سے 2009 کے درمیان طالبان نے علاقے پر کنٹرول کر لیا تھا۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی کے لوگ اپنے گاؤں اور یونین کونسلز کا دفاع کرنے کے لیے جنگجو طالبان کے خلاف میدان میں اترے تھے۔
دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ سوات میں گزشتہ روز ایک انجینئر سمیت ایک موبائل فون کمپنی کے 7 کارکنوں کو عسکریت پسندوں نے اغوا کر لیا۔
علاوہ ازیں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مٹہ سے کبل پہنچنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ ’نقاب پوش عسکریت پسند‘ تحصیل صخرہ کے علاقے میں آزادانہ طور پر گھومتے دیکھے گئے ہیں۔
کوہاٹ میں دستی بم حملہ
اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد کوہاٹ کے بلتانگ تھانے پر دستی بم حملہ ہوا جس میں ایس ایچ او، 4 کانسٹیبلز اور 2 شہریوں سمیت 7 افراد شدید زخمی ہوئے۔
ریسکیو 1122 نے زخمیوں کو فوری طور پر کے ڈی اے ٹیچنگ ہسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد سلیمان نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز اور پولیس کو کئی مہینوں سے دھمکیاں مل رہی تھیں اور اس حوالے سے الرٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: سوات میں دھماکہ، امن کمیٹی رہنما کا بیٹا ہلاک
ان کا کہنا تھا کہ حملے کے وقت لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گہرا اندھیرا تھا اس لیے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ حملہ آور موٹر سائیکلوں پر تھے یا پیدل آئے تھے۔
تاہم پولیس اور مسلح افواج کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور سرچ آپریشن شروع کر دیا۔
زخمی اہلکاروں کے نام ایس ایچ او عبدالرؤف خان، کانسٹیبل مظفر حسین، مطیع اللہ خان، عتیق اور اسامہ ہیں، واقعے میں 2 شہری عارف اور سہیل خان بھی زخمی ہوئے جو اس وقت تھانے میں موجود تھے۔
بعد ازاں سی ٹی ڈی نے نامعلوم دہشت گردوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے تفتیش شروع کردی۔
تبصرے (1) بند ہیں