• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سیلابی پانی اتنا زیادہ ہے کہ ڈیموں میں جمع کرنا ممکن نہیں ہے، وزیر اعلیٰ سندھ

شائع September 16, 2022
وزیر اعلیٰ نے ٹنڈو الہیار کا دورہ بھی کیا تھا —فوٹو: ڈان نیوز
وزیر اعلیٰ نے ٹنڈو الہیار کا دورہ بھی کیا تھا —فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سیلاب سے ہونے والے تباہی کم کرنے کے لیے مختلف حلقوں کی طرف سے ڈیمز بنانے کی اہمیت کی تجاویز رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں سیلاب اتنا زیادہ ہے کہ صرف ڈیموں سے نمٹا نہیں جا سکتا۔

حیدر آباد میں اجلاس کی صدارت کے بعد وفاقی وزیر برائے مواصلات اسعد محمود کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ جو لوگ ڈیموں کی تعیمرات پر بات کر رہے ہیں وہ وضاحت کریں کہ سندھ سے 120 ملین ایکڑ فٹ پانی تربیلا ڈیم اور دیامربھاشا ڈیم میں کیسے لے جایا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: وفاق کا ادارہ ’ارسا‘ صوبوں میں نفرت پیدا کر رہا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ

وزیر اعلیٰ سندھ نے اس بات پر بھی تعجب کا اظہار کیا کہ سندھ میں پانی کی اتنی بڑی مقدار محفوظ کرنے کے لیے ایسی جگہ کہاں ہے مگر ہم تمام تجاویز سننے کے لیے تیار ہیں۔

اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ چند ماہرین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں لوگوں کو کیوں ڈبو رہا ہوں، پانی کا رخ موڑ کیوں نہیں دیتا، تو مہربانی کرکے مجھے بتائیں کہ میں پانی کا رخ اور بہاؤ گاڑی کی طرح کیسے موڑ سکتا ہوں۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم تمام لوگوں کی وہ تجاویز سننے کے لیے تیار ہیں جو سیلابی صورت حال سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ نہ صرف آرمی چیف مگر دیگر لوگوں نے بھی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم کی تمعیر پر بات کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بارشوں سے صوبے کے ایک کروڑ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ خود سول انجنیئر ہیں اور انہوں نے کہا کہ جو لوگ ڈیم تعمیر کرنے کی بات کر رہے ہیں، ان سے میرا ایک سوال ہے کہ سندھ میں 120 ملین ایکڑ فٹ پانی آیا ہے، تو کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ پانی تربیلا اور دیامر بھاشا میں ڈیم میں کیسے جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سندھ کے عوام کے لیے چلینجنگ صورت حال ہے، اس وقت ہمیں بے گھر لوگوں کے لیے 15 لاکھ خیموں کی ضرورت ہے کیونکہ سندھ بھر میں 15 لاکھ لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت مزید راشن بیگز اور خیمے خریدنے جا رہی ہے جو یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن کے ذریعے حاصل کیے جا رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم نے اپنی کوالٹی کنٹرول تصریحات کے ساتھ راشن بیگز کی خریداری کے لیے حکومت کی متعلقہ تمام چھوٹ دی ہے۔

انہوں نے صحافیوں کو یقین دہانی کروائی کہ حکومت سیلاب متاثرین کو امداد فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے اور اگر لوگ مجھ سے عدم تعاون کی شکایت کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ان لوگوں کے پاس جا رہا ہوں اور ان کو اس مصیبت کی گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑا۔

مزید پڑھیں: بارشوں کا امکان: وزیر اعلیٰ سندھ کی کراچی میں نالے کلیئر کرنے، بل بورڈز ہٹانے کی ہدایت

مراد علی شاہ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ شکایات کر رہے ہیں اور یہ ان کا حق ہے وہ اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھیں کیونکہ وہ لوگ اس وقت تکلیف سے گزر رہے ہیں۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسعد محمود نے کہا کہ صوبے میں سڑکیں اور مواصلاتی نظام بحال کرنے کے لیے ان کی وزارت حکومتِ سندھ کے ساتھ رابطے میں ہے لیکن ابھی تک سندھ کے 5 سے 6 اضلاع زیر آب ہیں۔

وفاقی وزیر نے دنیا سے پاکستان کے سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کی بھی درخواست کی۔

اسعد محمود نے کہا کہ حکومت کو امداد اور بحالی دونوں چیلنجوں کا سامنا ہے، ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ انفرااسٹرکچر کی بحالی کیسے کی جائے، جس کے لیے ایک طریقہ کار تیار کیا گیا ہے اور ہم اس سلسلے میں مدد کے لیے دوسرے ممالک سے رجوع کرنے کی کوشش کریں گے۔

قبل ازیں، وزیراعلیٰ سندھ نے وزیر مواصلات سے ملاقات میں مختلف مواصلاتی مسائل خاص طور پر حیدرآباد-سکھر موٹروے کی تعمیر پر تبادلہ خیال کیا جبکہ وفاقی وزیر پانی سید خورشید نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی تھی۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ایم-6 پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کا حصہ تھا اور اسے سی پیک میں نظر انداز کیا گیا حالانکہ یہ ایک اہم سڑک کا منصوبہ تھا۔

مزید پڑھیں: سیلاب سے تباہی: سندھ بھر کو آفت زدہ قرار دینا ہوگا، وزیر اعلیٰ

انہوں نے اس پراجیکٹ کی تعمیر جلد از جلد شروع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ سندھ حکومت کے پاس پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) کا 12 سال کا تجربہ ہے اور صوبائی حکومت اس کے تحت 30 ارب روپے کی ملیر ایکسپریس بنا رہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024