ایران میں ہلاک مظاہرین کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کئی گنا زیادہ ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ایران میں جاری مظاہروں میں خواتین اور بچوں سمیت ہلاکتوں سے متعلق رپورٹس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرنے والے مظاہرین کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کئی گنا زیادہ ہے جبکہ اقوام متحدہ نے ایران کو مظاہرین پر طاقت سے استعمال سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ انتونیو گوتریس نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے انسانی حقوق بشمول آزادی اظہار رائے اور پراُمن اجتماع کے احترام پر زور دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران: مہسا امینی کی موت پر مظاہرے جاری، پولیس اسٹیشن نذر آتش، انٹرنیٹ سروس معطل
انہوں نے ایرانی صدر سے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
سیکریٹری جنرل نے مہسا امینی کی ہلاکت پر غیرجانبدار اور مؤثر تحقیقات کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
بیان کے مطابق سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایرانی سیکیورٹی فورسز سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ غیر ضروری اور غیر متناسب طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔
مزید پڑھیں: مہسا امینی کی موت پر ایران بھر میں پُرتشدد مظاہرے، 3 افراد ہلاک
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل کی محقق ’منصورے ملز‘ نے بتایا کہ ایران میں احتجاج میں جاں بحق ہونے والے مظاہرین کی اصل تعداد سرکاری اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ایرانی حکام انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے سچائی کو مسخ کرنے کا ایک باقاعدہ طریقہ کار اپناتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے خواتین کے حقوق کے شعبے کی سینئر محقق روتھنا بیگم نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے جو سرکاری میڈیا رپورٹ کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکام کو طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے اور مظاہروں کے دوران ہونے والی تمام اموات کی تحقیقات کرنی چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران: معروف مذہبی رہنما کا حکام سے ’مظاہرین کے مطالبات سننے‘ کا مطالبہ
روتھنا بیگم کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ ہفتے احتجاج کے دوران خواتین کے حقوق کے محافظوں کو گرفتار کیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں، اس کی ہم تحقیقات کر رہے ہیں۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ریسرچ ڈائریکٹر فلپ لوتھر نے کہا کہ ’حکام کو پولیس کے وحشیانہ کریک ڈاؤن کو فوری طور پر ختم اور انسانی جانوں کا احترام کرنا چاہیے۔‘
منصورے ملز نے مزید کہا کہ ’ایرانی حکومت صحافیوں، سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو بھی گرفتار کر رہی ہے تاکہ عوامی اختلاف رائے یا رپورٹنگ کو روکا جاسکے‘۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو فوری طور پر ایسے قواعد و ضوابط کو منسوخ کرنا چاہیے جو خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کو چھپاتے ہیں یا ان سے ان کے وقار اور جسمانی خود مختاری کے حق کو چھیننے کی کوشش کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ مہسا امینی کی موت کے بعد سے اب تک 1200 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے، ملک میں جاری مظاہرے گزشتہ تین برسوں میں ایرانی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے ہیں۔
نومبر 2019 میں سیکیورٹی فورسز نے سینکڑوں مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کیا تھا اور اس وقت بھی ایرانی حکام نے ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے مسلسل انکار کر دیا تھا۔
پس منظر
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ایران میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتار نوجوان خاتون مہسا امینی کی دوران حراست وفات پر شدید مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں مظاہرین کو ایران کے صوبہ کردستان کے قریبی شہروں سے 22 سالہ مہسا امینی کے آبائی شہر ساقیز میں جمع ہونے کے بعد حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے دیکھا گیا تھا جو تہران کے ہسپتال میں مرنے والی نوجوان خاتون کا سوگ منا رہے تھے۔
ان کی موت کے بعد ایران میں شخصی آزادی کی پابندیوں سمیت دیگر مسائل پر غم و غصے کو دوبارہ بھڑکایا، جہاں پر خواتین کے لیے لباس پہننے سے متعلق سختیاں ہیں اور معیشت پر پابندیاں عائد ہیں۔
خواتین نے مظاہروں میں نمایاں کردار ادا کیا، جنہوں نے نقاب لہرائے اور جلائے، کچھ نے عوامی مقامات پر اپنے بال کاٹے اور مشتعل ہجوم نے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے زوال کے نعرے لگائے۔
مزید پڑھیں: ایران میں احتجاج : 700 سے زائد مظاہرین گرفتار، فیصلہ کن طریقے سے نمٹیں گے، ایرانی صدر
ملک بھر میں یہ 2019 کے بعد سب سے بڑے مظاہرے ہیں، جب رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ ایندھن کی قیمتوں کے خلاف مظاہرے کے خلاف کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 1500 افراد ہلاک ہو گئے تھے، یہ ایران کی تاریخ کا سب سے بڑا خون ریز تصادم تھا۔
مہسا امینی کی موت کے بعد سے ایران کے مختلف شہرہوں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جن میں 40 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متعدد کو گرفتار کیا گیا ہے۔