پاکستان تحریک انصاف کی استعفوں سے متعلق آڈیو لیک کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے پارٹی کے قومی اسمبلی سے استعفوں سے متعلق وزیراعظم سمیت وفاقی وزرا کی لیک ہونے والی آڈیو کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کر دی ہے۔
پی ٹی آئی کی جانب سے استعفوں سے متعلق دائر درخواست اور زیر التوا مقدمے میں اسپیکر قومی اسمبلی اور دیگر اراکین کو فریق بنایا گیا جبکہ درخواست کے ساتھ آڈیو لیک کا ٹرانسکرپٹ بھی لگایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزرا نے اسپیکر کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کے استعفوں سے متلعق فوجداری سازش کی ہے۔
سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ پی ٹی آئی کے استعفوں سے متعلق آڈیو لیک کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے۔
درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ انکوائری کمیشن وزیراعظم شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، اعظم نذیر تارڑ، خواجہ آصف اور اسپیکرقومی اسمبلی راجا پرویز اشرف سے تحقیقات کرے اور تمام فریقین کے خلاف سازش پر فوجداری کارروائی شروع کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کی آڈیو لیک نے غیر ملکی سازش کے بیانیے کو ’چور چور‘ کردیا، وزیراعظم
بعدازاں اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ 'تحریک انصاف نے استعفوں سے متعلق وزرا کی گفتگو کی آڈیولیکس کا اسکرپٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے'۔
انہوں نے مزید لکھا کہ 'اب یہ لیکس سپریم کورٹ کے سامنے ہیں، ایک تو سپریم کورٹ ان لیکس کے بعد تحریک انصاف کے 11 اراکین کے استعفوں کے معاملے پر فیصلہ کرے اور اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان لیکس کی تحقیقات کا حکم دے'۔
خیال رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی بطور وزیر اعظم برطرفی کے بعد پی ٹی آئی ارکان اسمبلی نے 11 اپریل کو قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے ایوان کے قائم مقام اسپیکر کی حیثیت سے پی ٹی آئی کے 123 ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے تھے۔
تاہم موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے استعفوں کی تصدیق کا فیصلہ کیا اور 27 جولائی کو ان میں سے 11 استعفوں کو قبول کر لیا، بعد ازاں پی ٹی آئی نے یکم اگست کو اس اقدام کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے 6 ستمبر کو اس درخواست کو خارج کر دیا اور قاسم سوری کی جانب سے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کو قبول کرنا غیر آئینی قرار دیا۔
بعدازاں پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور درخواست کی تھی کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کو خلاف قانون قرار دے کر معطل کردے۔
آڈیو لیکس کا معاملہ
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم کی مبینہ آڈیو لیک سامنے آنے کے بعد وزرا، حکمراں اتحاد کے رہنماؤں اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی بھی مبینہ آڈیو کلپس منظر عام پر آ چکی ہیں۔
24 ستمبر کو وزیر اعظم شہباز شریف اور ایک سرکاری افسر کے درمیان مبینہ گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر لیک ہوئی تھی۔
اگلے روز جو کلپس منظر عام پر آئیں ان میں وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے استعفوں سے متعلق گفتگو کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: 'سائفر سے صرف کھیلنا ہے'، عمران خان کی اعظم خان سے مبینہ گفتگو کی آڈیو لیک
دوسرا کلپ مبینہ طور پر وزیر اعظم، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ اور قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق کے درمیان پارلیمنٹ کے ایوان زیریں سے پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے استعفوں کے بارے میں ہونے والی گفتگو سے متعلق ہے۔
اس آڈیو لیک میں پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں کی منظوری پر مبینہ طور پر وفاقی وزرا کی مختلف آرا پر گفتگو سنی جا سکتی ہے، آڈیو میں استعفوں کی منظوری کے لیے لندن سے اجازت لینے کا بھی ذکر کیا گیا۔
جبکہ تیسرے آڈیو کلپ میں مریم نواز کو سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کے بارے میں کہتے سنا جا سکتا ہے کہ 'اسے پتا نہیں کہ یہ کر کیا رہا ہے، اس نے بہت مایوس کیا، اس کی شکایتیں ہر جگہ سے آتی رہتی ہیں، وہ ذمہ داری نہیں لیتا، ٹی وی پر الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے جس کی وجہ سے لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں'۔
مزید پڑھیں: 'کسی کے منہ سے ملک کا نام نہ نکلے'، عمران خان کی مبینہ سائفر سے متعلق دوسری آڈیو لیک
واضح رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی اپنے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان، سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، سابق وزیرمنصوبہ بندی اسدعمر کے ساتھ سائفر کے حوالے سے 2 مبینہ آڈیوز بھی گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سامنے آچکی ہیں۔
متعدد آڈیو لیکس نے وزیر اعظم ہاؤس کی سیکیورٹی سے متعلق خطرے کی گھنٹی بھی بجا دی ہے، اس حوالے سے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔