1983 کے لواری شریف مزار قتل کیس میں زیرحراست 15 ملزمان بری
سندھ ہائی کورٹ نے بدین میں لواری شریف کے مزار کی رکھوالی کے معاملے پر 2 حریف گروپوں کے درمیان تصادم میں 7 افراد کے قتل سے متعلق 1983 کے ایک مقدمے میں زیرحراست 15 ملزمان کو بری کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر سیال کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے ریمارکس دیے کہ بدقسمتی سے کیس کو اس مقام تک پہنچنے میں 39 سال لگے، 17 سال ٹرائل میں اور 22 سال اپیل کے فیصلے میں گزر گئے۔
جنوری 1983 میں 32 افراد کو مبینہ طور پر 7 افراد کو قتل کرنے اور 3 کو زخمی کرنے کے الزام میں نامزد کیا گیا تھا، ان 32 میں سے 11 افراد کی موت مقدمے سے پہلے یا اس کے دوران ہوئی۔
ٹرائل کورٹ نے 17 ملزمان کو مجرم قرار دیا تھا اور 1999 میں 2 ملزمان کو بری کر دیا تھا جبکہ دیگر میں سے بیشتر کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، ان میں سے 2 ملزمان سزا کے بعد انتقال کر گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: 20 سال پرانے قتل کیس میں خاتون سمیت 3 افراد باعزت بری
بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اس کیس کا ریکارڈ طویل اور پیچیدہ ہے، غیر ضروری طور پر طویل اور بار بار جرح کے سبب متفرق اور نامکمل کاغذی کارروائیوں نے مشکلات کو مزید بڑھا دیا۔
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ پولیس نے کیس میں انتہائی یک طرفہ تفتیش کی ہے کیونکہ دفاعی درخواست پر تفتیشی افسر اور ٹرائل کورٹ نے بھی غور نہیں کیا۔
بینچ نے مزید کہا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپیل کنندگان میں سے ایک اس جھگڑے کے دوران زخمی ہوا تھا لیکن تفتیش کے دوران ان نتائج کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
بینچ نے مزید کہا کہ اگرچہ جھگڑے کی وجہ مزار کی جانشینی بتائی جاتی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ جھگڑا دراصل درگاہ کی زمین پر قبضے کی وجہ سے ہوا ہے اور اس معاملے میں دونوں ہی گروہ غلطی پر تھے۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: قتل کے 2 ملزمان 12 سال بعد بری
جسٹس عمر سیال نے فیصلے میں لکھا کہ ’واضح ہے کہ شکایت کنندگان نے اس واقعے میں اپنے حریف گروہ کے زیادہ سے زیادہ افراد کو ملوث کرنے کی کوشش کی ہے، تاہم اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پورے استغاثہ کے کیس کی صداقت کم از کم اپیل کنندگان کے حوالے سے مشکوک ہوگئی۔
بینچ نے مزید مشاہدہ کیا کہ اس مقدمے کے عینی شاہدین کو جائے وقوع پر موجود 32 ملزمان اور ان کے اسلحے کی شناخت کے علاوہ یہ بتانے کے لیے مافوق الفطرت صلاحیتیں درکار ہوں گی کہ فائرنگ کس نے کی تھی اور لاشوں کے کون سے حصے متاثر ہوئے تھے۔
بینچ نے کہا کہ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ 2 گروہوں کے درمیان ہونے والے بڑے پیمانے پر ہونے والے اس جھگڑے کا ہر گواہ پختہ طور پر عینی شاہد ہو جس میں ہتھیاروں کا کھلا استعمال ہو رہا تھا۔
بینچ کی جانب سے کہا گیا کہ میمو کے مطابق شناخت پریڈ میں کچھ طریقہ کار کی غلطیوں کے علاوہ شکایت کنندہ نے ملزمان کی جائے وقوعہ پر موجودگی کی نشاندہی کی تھی لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ وہ وہاں کیا کررہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: قتل کا ملزم 14 سال بعد رہا
بینچ نے وکلا اور خاص طور پر اپیل کنندگان کی نمائندگی کرنے والے وکیل محمود قریشی کو سراہا جنہوں نے محنت سے ریکارڈ کو اکٹھا کیا تاکہ اس کیس میں پیش ہونے والے شواہد سے واقعہ کی تصویر واضح ہو سکے۔
استغاثہ کے مطابق پیر گل حسن کی وفات کے بعد درگاہ لواری شریف کے متولی کے تنازع پر 2 گروپوں میں خونریز لڑائی ہوئی تھی، ملزمان نے مزار کے نئے متولی کے طور پر پیر فیض محمد کی حمایت کی تھی جبکہ شکایت کنندہ فریق نے اسے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔